امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین پر کورونا وائرس پھیلانے کے الزامات دہراتے ہوئے نئے ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی دے دی۔

خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے کورونا وائرس پر چین سے ہونے والی لفظی جنگ کے بعد مختلف جوابی اقدامات کی تیاری کررہی ہے۔

امریکی صدر کی جانب سے کورونا وائرس کے معاملے پر چین کے ساتھ تلخی مزید گہری ہوگئی ہے جبکہ وائرس کے باعث ہزاروں امریکی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور لاکھوں متاثر ہوچکے ہیں۔

مزید پڑھیں:چین نے الیکشن میں مداخلت سے متعلق امریکی صدر کا بیان مسترد کردیا

امریکی عہدیداروں نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ چین کے خلاف کئی اقدامات زیر بحث ہیں تاہم انہوں نے پہلے مرحلے میں طے کئے گئے اقدامات ظاہر کرنے سے گریز کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ تجاویز ٹرمپ کی قومی سلامتی امور کی ٹیم اور خود صدر کی سطح پر طے نہیں ہوئی ہیں۔

چین پر نئی معاشی پابندیوں سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ 'چین کو روکنے اور بری طرح نشانہ کیسے بنایا جائے، اس پر بات ہورہی ہے' جبکہ چین سے پرسنل پروٹیکشن ایکوپمنٹ (پی پی ایز) کی درآمد کے باوجود واشنگٹن اپنے تعلقات میں سختی کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔

ٹرمپ یہ واضح کرچکے ہیں کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں چین کے کردار پر انہیں تحفظات ہیں اور چین کے ساتھ معاشی معاہدوں پر یہ بات اولین ترجیح ہوگی۔

امریکی صدر نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ہم نے ایک تجارتی معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت انہوں نے زیادہ برآمد کرنا تھا اور وہ کررہے ہیں لیکن اب وائرس کے بعد یہ بات ثانوی ہوگئی ہے کیونکہ وائرس کی صورت حال ناقابل قبول ہے'۔

واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے چند عہدیداروں نے تجویز دی کہ امریکی قرضوں کو منسوخ کردیا جائے تاکہ کووڈ-19 کے خلاف چین کے اقدامات میں رکاوٹ پیدا کی جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں:کورونا وائرس: امریکا، چین میں لفظوں کی جنگ شدت اختیار کرگئی

تاہم ٹرمپ کے معاشی مشیر لیری کوڈلو نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 'امریکی قرضے کے معاہدے پر عمل واجب ہے جس پر بات ختم ہے'۔

قرضوں کو روکنے سے متعلق ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ 'میں کچھ مختلف نہیں کرسکتا ہے، میں وہی چیز کرسکتا ہوں لیکن ٹیرف بڑھا کر زیادہ پیسے کے لیے اس لیے مجھے یہ سب کچھ کرنے کی ضرورت نہیں'۔

خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے قبل چین پر الزام عائد کیا تھا کہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں میری شکست کے لیے چین ہر ممکن وسائل استعمال کرے گا۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ چین سے جو کچھ بن سکا وہ میری شکست کے لیے کرے گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ چین چاہتا ہے کہ ان کا سیاسی حریف کامیاب ہو تاکہ جو دباؤ چین پر میں نے ڈالا وہ دور کیا جا سکے۔

چین کے خلاف مختلف اقدامات کی دھمکی دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں چین کے تناظر میں دیگر آپشنز پر بھی غور کررہا ہوں اور ’میں بہت کچھ کر سکتا ہوں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ چین کے ساتھ امریکی تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ کیے گئے ان کے معاہدے، وائرس سے سامنے آنے والے معاشی نقصانات سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ کے سینئر حکام نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ ’لفظی جنگ کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ اور شی جن پنگ کے درمیان مارچ کے آخر میں ایک فون کال پر غیر رسمی معاہدہ ہوا تھا جو اب لگتا ہے کہ ختم ہوگیا ہے۔

مزید پڑھیں:چین اور امریکا کے درمیان کورونا وائرس کے حوالے سے لفظی جنگ میں تیزی

اس سے قبل 27 اپریل کو وائٹ ہاؤس میں گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ہم چین سے خوش نہیں ہیں، ہم پوری صورتحال سے خوش نہیں ہیں کیونکہ ہمارا ماننا ہے کہ اس کو جڑ سے روکا جا سکتا تھا۔

دنیا بھر میں کورونا وائرس سے اموات کا سلسلہ جاری ہے لیکن ساتھ ہی امریکا اور چین کے درمیان کورونا وائرس سے متعلق الزام تراشتیوں کا معاملہ بھی شدت اختیار کر گیا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کورونا کو ’چینی وائرس‘ قرار دیا گیا تھا جس پر چین نے سخت ردعمل دیتے ہوئے ٹرمپ کے الزامات کو یکسر مسترد کردیا تھا۔

بعدازاں امریکی انٹیلی جنس اداروں نے جو وائٹ ہاؤس میں جمع کرائی گئی خفیہ رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ چین نے اپنے ملک میں کورونا وائرس کی وبا کے پھیلنے کو چھپا کر رکھا اور اس کے لیے کیسز اور اموات کی مجموعی تعداد پوری طرح ظاہر نہیں کیے۔

کورونا وائرس کی وبا سے قبل چین اور امریکا کے مابین تجارتی جنگ جاری تھی جس کے نتیجے میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر اربوں ڈالر کے ٹیرف عائد کردیے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں