لاک ڈاؤن کے باعث معاشی سرگرمیاں متاثر ہونے سے مزدور طبقہ مشکلات کا شکار

اپ ڈیٹ 01 مئ 2020
رپورٹ کے مطابق تجارتی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے مزدوروں کے حق میں آواز اٹھائی ہے لیکن اس کا کوئی نتیجہ دیکھائی نہیں دے رہا — فوٹو: شٹراسٹاک
رپورٹ کے مطابق تجارتی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے مزدوروں کے حق میں آواز اٹھائی ہے لیکن اس کا کوئی نتیجہ دیکھائی نہیں دے رہا — فوٹو: شٹراسٹاک

کراچی: کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث نافذ لاک ڈاؤن کے دوران بھی مزدور اپنے آلات کے ساتھ آتے ہیں جن میں سے اکثر کو گزری فلائی اور کے نیچے سائے میں بیٹھے دیکھا جاسکتا ہے۔

اس تپتی دھوپ میں جہاں سایہ ملے وہ گزری فلائی اور کے نیچے بیٹھے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں، رنگ ساز، پلمبر، الیکٹریشن سب وہیں ہوتے ہیں، ان کی ہر گزرنے والی گاڑی اور ان کے پاس سے گزرنے والے ہر شخص کی راہ تکتی ہیں۔

وہ غیر منظم مزدور طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں جہاں اگر وہ دن میں کوئی کام تلاش کرسکیں تو اس سے انہیں کچھ رقم حاصل ہوتی ہے اگر نہیں کرسکے تو انہیں جھکے سر کے ساتھ بھوک کا شکار خاندانوں کا سامنا کرنے کے لیے گھر جانا ہوگا۔

رنگ ساز فقیر نے یوم مزدور کی شب ڈان کو بتایا کہ 'مجھے 3 روز قبل رنگ کا کام ملا تھا، مجھے ایک گھر کے پورے کمرے کا رنگ میں پورا دن لگا اور مجھے اس کے لیے ایک ہزار 5 سو روپے ادا کیے گئے'۔

مزید پڑھیں: یوم مزدور کے موقع پر صدر و وزیراعظم کا کورونا سے متاثرہ افراد سے اظہار یکجہتی

انہوں نے کہا کہ لیکن ہر دن اچھا نہیں ہوتا، اس لاک ڈاؤن میں زندگی سست ہوگئی ہے، کمائی اتفاقاً ہوتی ہے لیکن میرے خاندان کو روزانہ خوراک کی ضرورت ہے، ہمارا گزارا اکثر اوقات خیرات اور لوگوں کی زکوۃ پر ہورہا ہے۔

شازیہ بی بی گھر پر کڑھائی کا کام حاصل کرتی تھیں، انہوں نے کہا کہ جو شخص مجھے کام دیتا تھا وہ ایک ماہ قبل سارا سامان مجھے دے کر گیا تھا اب جب میں انہیں یہ بتانے کے لیے کال کرتی ہوں کہ کام ہوگیا تو مجھے جواب ملتا ہے کہ اسے اپنے پاس رکھیں کیونکہ کاروبار کم ہونے سے ان کے پاس مجھے دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ادائیگی نہ ملنے کی وجہ سے گزارا کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ایک غیر سرکاری تنظیم (این جی او) راشن فراہم کررہی ہے جس کے لیے وہ ان کی بہت شکر گزار ہیں۔

عابدہ بی بی گبول ٹاؤن میں واقع تولیہ فیکٹری کے لیے کام کرنے والے 50 ملازمین میں سے ایک ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں فیکٹری مالکان کی جانب سے راشن دیا گیا تھا جو 15 دن تک چلا لیکن نہ وہ ہمیں کام دے رہے ہیں اور نہ ہی پیسے اور ہم یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور تھے اور جو کام کرتے تھے اس کی ادائیگی کی جاتی تھی۔

عابدہ بی بی نے کہا کہ ہم نے کئی مرتبہ فیکٹری میں فون کیا ہے لیکن کوئی ہماری کال نہیں اٹھاتا۔

شاہدہ بی بی حیدرآباد میں چوڑیوں کی گھریلو صنعت کے لیے کام کرتی تھیں، انہوں نے کہا کہ 'مجھے مارچ سے کوئی کام نہیں ملا'۔

انہیں گھروں میں کام کرنے والے ورکرز کے لیے بنائی گئی این جی او کی جانب سے راشن ملا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ این جی او نے سوٹ اور شرٹ پیس کی فروخت کا نیا کام تلاش کرنے میں بھی مدد کی ہے جو میں ہول سیل مارکیٹ سے خرید کر گھر سے بیچتی ہوں۔

وسیم خان آئل پینٹس کی کمپنی کے لیے کام کرتے تھے جہاں سے انہیں لاک ڈاؤن کے دوران نکال دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک ماہ کی تنخواہ ادا کی گئی تھی اور دوبارہ شکل نہ دیکھانے کا کہا گیا تھا کیونکہ ہم اپنے جائز واجبات کا مطالبہ کررہے ہیں، انہوں نے کہا کہ مجھ سمیت 8 افراد کو ملازمت سے نکالا گیا تھا۔

وسیم خان نے کہا کہ کمپنی مالکان ہم سے ناراض ہیں، انہوں نے کہا کہ ہمیں اس لاک ڈاؤن کے دوران ان کے مسائل کو سمجھنا چاہیے لیکن کیا انہوں نے ایک سیکنڈ کے لیے بھی یہ غور کیا کہ ہم بھوک کا شکار خاندانوں کے ساتھ کن مسائل کا سامنا کررہے ہیں۔

سلیم جو بین الاقوامی برانڈز سے آرڈرز لینے والی گارمنٹ فیکٹری کے لیے کام کرتے تھے انہیں بھی ملازمت سے نکال دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لاک ڈاؤن: ایک کروڑ 80 لاکھ پاکستانیوں کے ملازمت سے محروم ہونے کا خدشہ

انہیں بغیر ادائیگی کے ملازمت سے نکالا گیا کیونکہ آجر نے انہیں بیرون ملک سے آرڈر نہ لینے سے متعلق آگاہ کیا تھا۔

سلیم نے کہا کہ میں اب بیوی اور 3 بچوں کے ساتھ شکارپور کے قریب اپنے گاؤں آگیا ہوں، میں گندم اور ٹماٹر کے کھیتوں میں کام کرتا ہوں کبھی میں ایک دن میں 150 روپے اور بعض اوقات 200 سے 250 روپے تک کمالیتا ہوں۔

عبدالباسط بھی گارمنٹ فیکٹری میں ملازمت کرتے تھے اور انہیں صرف 23 روز کی تنخواہ ادا کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ مجھے کہا گیا تھا کہ میں نے صرف 23 مارچ تک کام کیا اس لیے ایسا ہے جس کے بعد ہر چیز رک گئی تھی۔

عبدالباسط نے کہا کہ میری تنخواہ 18ہزار روپے تھی لیکن مارچ میں مجھے 16 ہزار روپے دیے گئے اب میں اور میرا خاندان خیرات کے طور پر دیے جانے والے راشن پر گزارا کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے کبھی یہ قبول نہ کیا ہوتا لیکن میں ایسا کرنے پر مجبور ہوں اور جو کچھ میں حاصل کررہا ہوں اس پر ان کا شکرگزار ہوں کیونکہ مجھے اپنے خاندان کا پیٹ پالنا ہے۔

مزید برآں تجارتی یونینز اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان غریب ورکرز کے حق میں آواز اٹھائی ہے، انہوں نے صوبائی حکومت کو غریب مزدوروں کو لاک ڈاؤن کے دوران متاثر نہ ہونے کا وعدہ یاد دلایا ہے لیکن اس کا کوئی نتیجہ دیکھائی نہیں دے رہا۔


یہ خبر یکم مئی، 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں