ٹریکنگ سسٹم سے 5 ہزار سے زائد افراد کے کورونا میں مبتلا ہونے کے خطرے کی نشاندہی

اپ ڈیٹ 02 مئ 2020
ان افراد میں مریض اور وہ افراد شامل ہیں جن کا مریضوں سے رابطہ ہوسکتا ہے، سربراہ این آئی ٹی بی—فائل فوٹو: اے ایف پی
ان افراد میں مریض اور وہ افراد شامل ہیں جن کا مریضوں سے رابطہ ہوسکتا ہے، سربراہ این آئی ٹی بی—فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی: حکومت کے ٹریس اینڈ ٹریکنگ سسٹم نے ملک بھر میں 5 ہزار سے زائد افراد کے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کے خطرے کی نشاندہی کردی۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ حکومت، کورونا وائرس کے کیسز کے لیے ٹریکنگ سسٹم استعمال کررہی ہے جو انٹیلی جنس ایجنسیز کی جانب سے دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔

انہوں نے ایک براہ راست ٹیلی تھون کے دوران کہا تھا کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) نے ہمیں ٹریک اور ٹریس کے لیے ایک بہت زبردست سسٹم دیا ہے، یہ دراصل دہشت گردوں کے خلاف استعمال ہوتا تھا اور اب یہ کورونا وائرس کے خلاف استعمال ہوگا۔

حکومت کو ٹریکنگ کی سہولت فراہم کرنے والے نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ(این آئی ٹی بی) کے سربراہ شباہت شاہ کے مطابق اب تک 5 ہزار کے قریب افراد کے رابطے کی تفصیلات حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دی گئی ہیں جو ان شناخت کیے گئے افراد تک پہنچیں گے اور اس نظام کی درستی کی تصدیق کریں گے۔

مزید پڑھیں: اجتماعی عبادت سے متعلق ایس او پیز پر عملدرآمد علما کی ذمہ داری ہے، عمران خان

انہوں نے کہا کہ ان افراد میں مریض اور وہ افراد شامل ہیں جو ہوسکتا ہے ان مریضوں سے رابطے میں آئے ہوں۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سسٹم خطرے کا شکار افراد کی نقل حرکت معلوم کرنے کے لیے ٹیلی کام ڈیٹا کا استعمال کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ سیل ٹاور ٹریسنگ پر مبنی لوکیشن کا نصف قطر (ریڈیس) لوگوں کو ٹریس کرنے کے لیے بہت وسیع ہے لہٰذا ہم مزید درستی کے لیے نصف قطر کو کم کرنے کے لیے سسٹم کے الگورتھم کا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

شباہت شاہ نے کہا کہ پاکستان کے شہری علاقوں میں ریڈیس 100 میٹر اور دیہی علاقوں میں 200میٹر ہے۔

واضح رہے کہ ٹیلی کام پرووائیڈرز، سیل سائٹ لوکیشن انفارمیشن(سی ایس ایل آئی) کے استعمال سے موبائل فونز کے لوکیشن ڈیٹا جمع کرتے ہیں، جو اس پرمبنی ہوتا ہے کہ کس سیل ٹاور سے کوئی فون کب اور کس وقت منسلک ہوا۔

چونکہ سیل ٹاورز کے مابین موبائل ڈیوائسز کی منتقلی بھی ہوتی ہے اس لیے نیٹ ورک وقت اور لوکیشن کے علاوہ کال ڈیٹیل ریکارڈز (سی ڈی آرز کی شکل میں) کالز، ایس ایم ایس اور ڈیٹا کا استعمال بھی ریکارڈ کرلیتا ہے۔

شباہت شاہ نے ڈان کو بتایا کہ ایک مرتبہ تمام معلومات ٹریک سینٹر پر موصول ہوجائیں تو صرف ان افراد کا پتہ لگانے اور قرنطینہ کرنے کے لیے غیر شناختی تفصیلات ( جیسا کہ فون نمبر) صوبائی اور ضلعی حکام کو دی جاتی ہیں۔

سسٹم کی جانب سے جمع کیے گئے مکمل ڈیٹا تک رسائی کے لیے نیشنل کمانڈ سینٹر کے ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ادارے اور سیکیورٹی ایجنسیز بھی ٹیکنالوجی کی نگرانی کریں گی جبکہ صوبائی حکومتیں اور قانون نافذ کرنے والے مقامی گروہ اس پر عملدرآمد جیسا کہ لوگوں سے رابطہ کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔

لوگوں کی ٹریکنگ کے لیے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پی) سے متعلق سوال پر شباہت شاہ نے کہا کہ اس وقت وہ طریقہ کار کے اثر انداز ہونےکی صلاحیت اور درست ہونے کی جانچ کررہے ہیں۔

خیال رہے کہ 'ایس او پیز فار کانٹیکٹ ٹریسنگ' کے عنوان سے دستاویز قومی ادارہ برائے صحت کی ویب سائٹ پر موجود ہے جو رابطے کے طور پر نشاندہی کی وضاحت کرتا ہے لیکن اس حوالے سے ٹیکنالوجی کی تفصیلات موجود نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں 30 مئی تک کورونا کیسز کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تک پہنچنے کا امکان

درحقیقت اس کا زیادہ تر مواد آسٹریلوی وزارت صحت کی ہدایات سے لیا گیا ہے۔

علاوہ ازیں صرف سیل ٹاور ٹریسنگ کے استعمال سے خطرے کا شکار 5 لاکھ 60 ہزار کے قریب افراد کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی(پی ٹی اے) کی جانب سے 'کورونا الرٹ' کا پیغام بھیجا گیا ہے۔

گزشتہ ماہ پی ٹی اے نے کہا تھا کہ وزارت صحت کی درخواست پر ان لوگوں کو ایس ایم ایس الرٹس بھیجے گئے ہیں جو دورانِ سفر یا دیگر مقامات پر متاثرہ افراد سے رابطے میں آسکتے ہیں۔

الرٹ میں کہا گیا ہے کہ 'یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ گزشتہ 14 روز میں آپ نے کورونا وائرس کے مصدقہ کیس سے رابطہ کیا ہو لہٰذا آپ سے خود ساختہ قرنطینہ کرکے ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی درخواست کی جاتی ہے'۔

اس الرٹ میں علامات ظاہر ہونے جیسا کہ بخار، کھانسی، سانس لینے میں یا جسم میں تکلیف کی صورت میں قریبی طبی مرکز جانے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔


یہ خبر 2 مئی، 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں