نئے نوول کورونا وائرس کے نتیجے میں دنیا بھر میں لاک ڈاؤن اور دیگر بندشوں کے نتیجے میں عالمی سطح پر زہریلی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں رواں سال لگ بھگ 8 فیصد کمی آنے کا امکان ہے جو تاریخ میں سب سے بڑی کمی بھی ہے۔

انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کی جانب سے جاری نئی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے لاک ڈاؤنز کے نتیجے میں روایتی ایندھن کے استعمال میں 'بے نظیر' کمی آئی ہے۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کمی کا مطلب موسیاتی تبدیلیوں کے مسئلے میں کمی آن نہیں کیونکہ جب وائرس کا زور ٹوٹ جائے گا اور ممالک معاشی سرگرمیوں کا آغاز کریں گے تو یہ زہریلی گیسوں کا اخراج پھر بڑھ جائے گا، اس سے بچنا جب ہی ممکن ہوگا جب حکومتیں شفاف توانائی کے حوالے سے کوششیں مزید تیز کردیں۔

انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر فیتھ بیرول نے کہا 'زہریلی گیسوں کے اخراج میں تاریخی کمی وبا کا نتیجہ ہے، یعنی لوگ مررہے ہیں اور ممالک معاشی دھچکوں کا سامنا کررہے ہیں، درحقیقت گیسوں کے اخراج میں مستحکم کمی تکلیف دہ لاک ڈاؤن سے نہیں بلکہ درست توانائی اور موسمیاتی پالیسیوں سے ہی ممکن ہے'۔

اس وقت دنیا بھر میں 4ارب کے قریب افراد گھروں تک محدود ہیں اور اقتصادی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔

انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق اپریل کے وسط طمیں متعدد ممالک میں ایندھن کا استعمال گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 17 سے 25 فیصد تک کم تھا جس کی وجہ کارخانے بند ہونا، لوگوں کو دفاتر نہ جانا اور ہوائی پروازیں معطل ہونا تھی۔

ایجنسی کے مطابق متعدد حکومتیں اب ان پابندیوں کو نرم کرنے والی ہیں، چین میں پہلے ہی ایسا ہوچکا ہے جبکہ امریکا میں بھی کچھ ریاستیں کاروبار کھولنے والی ہیں، تاہم اس کے باوجود اس سال عالمی سطح پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج 2.6 ارب ٹن رہنے کا امکان ہے جو کہ 2019 کے مقابلے میں 8 فیصد کم ہے۔

درحقیقت 2010 آخری سال تھا جب اتنی مقدار میں زہریلی گیسوں کا اخراج ہوا تھا اس کے بعد ایک دہائی تک یہ سطح کافی زیادہ رہی تھی اور کورونا وائرس کے نتیجے میں جو کمی آی ہے جو 2009 کے معاشی بحران سے 6 گنا زیادہ ہے جبکہ دوسری جنگ عظیم مین بھی اتنی کمی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔

تاہم اس ابتدائی تخمینے کے حوالے سے کافی کچھ غیریقیینی ہے۔

یعنی اگر ممالک توقع سے زیادہ عرصے تک لاک ڈاؤن یا دیگر پابندیوں کی زد میں رہے تو زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی بھی بہت زیادہ ہوگی جبکہ وائرس کو زیادہ جلد کنٹرول کرلیا گیا تو کمی کی شرح کم ہوجائے گی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ماضی میں جیسے 2009 کے معاشی بحران کے بعد جب معاشی سرگرمیاں تیز ہوئیں تو زہریلی گیسوں کا اخراج بھی بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔

خیال رہے کہ فروری کے آخر میں سب سے پہلے لاک ڈائون کا اثر چین کی فضائی آلودگی میں دیکھنے میں آیا تھا اور سیٹلائیٹ تصاویر میں دکھایا گیا تھا کہ چین میں کس طرح ڈرامائی حد تک نائٹروجن آکسائیڈ کے اخراج میں کمی آئی، جو گاڑیوں سے خارج ہونے والی گیس ہے جس کی فضا میں زیادہ مقدار صحت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔

فوٹو بشکریہ ناسا
فوٹو بشکریہ ناسا

یورپین اسپیس ایجنسی کی سیٹلائیٹ تصاویر میں یہ اثر شمالی اٹلی میں بھی دیکھنے میں آیا جہاں لاک ڈائون کو کئی ہفتے گزر چکے تھے، ویڈیو میں دیکھا جاسکا ہے کہ کس ڈرامائی حد تک یکم جنوری سے 11 مارچ کے دوران نائٹروجن ڈی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی آئی۔

یورپی ایجنسی کے مطابق اس اخراج میں کمی کی وجہ لاک ڈائون کے دوران ٹریفک اور انسانی سرگرمیوں میں کمی آنا ہے۔

درحقیقت سب سے بڑا اثر جو دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے وہ اٹلی کے مشہور شہر وینس کا ہے جس کی نہریں سیاحوں کے رش بہت زیادہ دھندلی اور غلیظ ہوچکی تھیں۔

مگر کئی ہفتے کے لاک ڈائون کے بعد وہ اتنی شفاف ہوگئی ہیں کہ متعدد اقسام کی مچھلیاں یہاں تک کہ جیلی فش کو بھی ان میں تیرتے دیکھا جاسکتا ہے۔

اسی طرح اپریل 2019 اور اپریل 2020 کی سیٹلائیٹ تصاویر میں وینس کی نہروں کا موازنہ کیا گیا اور اندازہ ہوتا ہے کہ اب پانی کی رنگت پہلے سے زیادہ خوبصورت اور شفاف ہوگئی ہے۔

پاکستان میں لاک ڈائون سے فضائی آلودگی میں کمی کے حوالے سے کوئی ڈیٹا تو اب تک سامنے نہیں آیا مگر کراچی کی چند تصاویر سے عندیہ ملتا ہے کہ وہاں کی فضا اب کتنی صاف ہوگئی، جو عموماً گرد اور دھویں کی وجہ سے دھندلی نظر آتی تھی۔

ایسی ہی لاہور کی جنوری 2019 اور رواں ماہ کی ایک تصویر میں یہ فرق محسوس کی جاسکتا ہے۔

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کو دنیا کا آلودہ ترین شہر سمجھا جاتا ہے مگر وہاں بھی لاک ڈائون سے نمایاں فرق دیکھنے میں آیا ہے۔

اے پی فوٹو
اے پی فوٹو

دنیا بھر میں بندشوں کے نتیجے میں فضا میں کاربن کی مقدار پر بھی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

سینتر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ائیر کے تجزیہ کار لوری مائلیویترا کے مطابق چین میں لاک ڈائون کے نتیجے میں کوئلے اور تیل کم جلانے سے کاربن کے اخراج کی شرح میں 2019 کے اسی عرصے کے مقابلے میں 25 فیصد کمی آئی۔

یہ مقدار 100 میٹرک ٹن کے برابر سمجھی جاسکتی ہے جو اسی عرصے میں عالمی سطح کے 6 فیصد حصے کے برابر ہے۔

اور ایسا لگتا ہے کہ ایسے ڈرامائی تبدیلیاں ابھی کچھ عرصہ مزید دیکھنے میں آئیں گی کیونکہ فی الحال دنیا بھر میں لاک ڈائون میں نرمی تو کی جارہی ہے مگر زندگی کی معمول پر واپسی کب تک ہوگی، یہ ابھی کوئی بھی نہیں کہہ سکتا۔

ماہرین کے مطابق ویکسین کی دستیابی سے قبل اس طرح کی پابندیاں کسی حد تک برقرار رہیں گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں