پاکستان پریس فاؤنڈیشن کا کورونا وائرس کی کوریج کرنے والے صحافیوں کے تحفظ کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 03 مئ 2020
میڈیا سے وابستہ 38 افراد وائرس سے متاثر ہوئے ہیں — فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
میڈیا سے وابستہ 38 افراد وائرس سے متاثر ہوئے ہیں — فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

اسلام آباد: پاکستان پریس فاؤنڈیشن نے کورونا وائرس کی کوریج کرنے والے صحافیوں کے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کووڈ-19 کے پھیلاؤ کی وجہ سے پاکستان میں میڈیا ایک نئے چیلنجنگ ماحول میں کام کررہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق میڈیا سیفٹی اینڈ پریس فریڈم ان 2020-2019 رپورٹ کے مطابق ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے اب تک 2 صحافی انتقال کرچکے ہیں جبکہ میڈیا سے وابستہ 38 افراد وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔

3 مئی کو عالمی آزادی صحافت کے موقع پر جاری کی گئی رپورٹ میں کورونا وائرس کے باعث پاکستانی میڈیا کے لیے پیدا خطرناک صورتحال کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اکثر میڈیا آرگنائزیشنز کے ساتھ ساتھ حکومت بھی میڈیا ورکرز کے حفاظتی پروٹوکولز کے مؤثر نفاذ کو یقینی نہیں بنایا نہ ہی انہیں بروقت پرسنل پروٹیکٹو ایکوئپمنٹ (پی پی ایز) فراہم کی گئی۔

مزید پڑھیں: آزاد کشمیر میں 2 صحافیوں میں کورونا وائرس کی تصدیق

اس کے ساتھ ہی رپورٹ میں پاکستان کی میڈیا تنظیموں بشمول پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے)، آل پاکستان نیوزپیپر سوسائٹی (اے پی این ایس) اور کونسل آف پاکستان نیوزپیپر سوسائٹی (سی پی این ای) سے تمام میڈیا ورکرز کے لیے کورونا وائرس کی محفوظ کوریج کی تفصیلی قابل عمل ہدایات تیار کرنے اور ان کے اداروں کی جانب سے عملدرآمد کی نگرانی کی تجویز دی گئی۔

پی پی ایف نے حکومت سے میڈیا کو تعاون فراہم کرنے اور میڈیا ورکرز کی حفاظت کو یقینی بنانے پر بھی زور دیا۔

اس میں کہا گیا کہ میڈیا ورکرز میں کورونا وائرس کے مثبت کیسز کی تعداد خطرناک ہے اور 38 کے قریب افراد میں وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے۔

رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ میڈیا ورکرز کی حفاظت کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس نے میڈیا کے لیے نئے چیلنجز پیدا کردیے ہیں کہ عالمی وبا کو کیسے کور کیا، درست معلومات کیسے یقینی بنائی جائیں کیونکہ سوشل میڈیا پر بہت سی جعلی خبریں بھی زیر گردش ہیں۔

اس میں مزید تجویز دی گئی ہے کہ اس وقت کی حکومت کی ہر سطح پر معلومات کے آزاد بہاؤ کی ضرورت کو تسلیم کیا جائے اور اپنے کام کے باعث گرفتار کیے گئے صحافیوں کو رہا کیا جائے۔

رپورٹ میں 2020-2019 کے دوران آزادی صحافت اور صحافیوں کے تحفظ سے متعلق عوامل کو بھی بیان کیا گیا۔

پی پی ایف کی رپورٹ میں کہا گیا کہ جنوری 2019 اور اپریل 2020 کے درمیان پاکستان میں صحافیوں نے بڑھتی ہوئی پابندیوں میں کام کیا اور آزادی اظہار رائے کو محدود کرنے والوں کا احتساب کم ہوا، صحافیوں کو نشانہ بنانے اور میڈیا کو بدنام کرنے کے مقصد سے صحافیوں پر حملوں سے لے کر صحافتی اداروں پر دباؤ ڈالنے کے لیے مالی رکاوٹیں پیدا کرنے کا عمل جاری رہا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ایک سال میں 7 صحافی قتل کردیے گئے، رپورٹ

رپورٹ میں کہا گیا کہ اس سال ایک صحافی کو کچھ دیر کے لیے اغوا اور ہراساں کیا گیا، ایک صحافی کے گھر پر چھاپا مارا گیا اور لکھاری محمد حنیف کی کتابیں اردو میں شائع کرنے والے ایک پبلشنگ ہاؤس پر چھاپا مارا گیا۔

اس میں کہا گیا کہ 5 صحافیوں کو گرفتار بھی کیا گیا اس میں 12 مارچ کو سب سے ہائی پروفائل جنگ اور جیو میڈیا گروپ کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری بھی شامل ہے جنہیں قومی احتساب بیورو (نیب) نے 34 برس قبل خریدی گئی رہائشی اراضی میں بے قاعدگیوں پر حراست میں لیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اس گرفتاری سے آزادی صحافت کے خدشات میں اضافہ ہوگیا اور یہ ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔

پی پی ایف کے مطابق ایک ایسا ماحول جس میں صحافی، حکومت اور دیگر حکام کا نشانہ بنے اور انہیں اکثر کام کے لیے زبانی اور جسمانی طور پر دھمکایا گیا یہ پاکستان میں آزادی صحافت اور صحافیوں کے تحفظ کی مایوس کن تصویر پیش کرتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں