کسی سنگین بیماری میں مبتلا ہونے کا علم اسمارٹ فون نوٹیفکیشن سے ہونا تو سائنس فکشن خیال لگتا ہے مگر کسی حد تک یہ درست ثابت ہونے والا ہے۔

درحقیت گوگل اور ایپل کے آپریٹنگ سسٹمز کچھ دنوں میں ایسا کرنے والے ہیں اور دونوں کمپنیوں نے اب اعلان کیا ہے کہ نئے نوول کورونا وائرس کی ٹریکنگ میں مدد دینے والا ٹول کس طرح کام کرے گا اور کس طرح لوگوں کو علم ہوگا کہ وہ خطرے کی زد میں ہیں۔

4 مئی کو ایپل اور گوگل نے اینڈرائیڈ اور آئی او ایس ڈیوائسز میں بلیوٹوتھ سسٹم کے بارے میں نئی تفصیلات جاری کیں جو کووڈ 19 کی ٹریکنگ میں مدد فراہم کرے گا۔

دونوں کمپنیوں نے واضح کیا کہ یہ ٹول کسی ملک میں حکومتی اداروں کی مدد سے استعمال کیا جاسکے گا اور قومی سطح پر اس کے استعمال کو ترجیح دی جائے گی۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ریاستی اور صوبائی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کیا جائے گا اور انہیں ٹول کے ایپلی کیشن پروگرامنگ انٹرفیس تک رسائی دی جائے گی مگر لوکیشن ٖڈیٹا اکٹھا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور کسی صارف کے دیگر کے قریب ہونے سے متعلق معلومات کو حاصل کرنے سے پہلے اس فرد کی منظوری حاصل کی جائے گی۔

اسی طرح کووڈ 19 سے متاثرہ افراد کے فونز سے حاصل کسی بھی معلومات کو اپ لوڈ کرنے سے پہلے اجازت حاصل کی جائے گی۔

دونوں کمپنیوں نے پہلی بار یوزر انٹرفیس کے اسکرین شاٹس بھی شائع کیے ہیں اور یہ ٹول رواں ماہ کے وسط میں عام استعمال کے لیے متعارف کرایا جارہا ہے۔

گزشتہ ماہ اس ٹول کو متعارف کرانے کا اعلان کرتے ہوئے ان کمپنیوں نے بتایا تھا کہ اس نئے بلیو ٹوتھ پروٹوکول کو کانٹیکٹ ٹریسنگ کا نام دیا جارہا ہے، جو اسمارٹ فون کے ذریعے صارفین کو آگاہ کرے گا کہ وہ کسی متاثرہ فرد سے رابطے میں آئے ہیں۔

اس موقع پر ایپل کی جانب سے جاری وائٹ پیپر کے مطابق اس ٹیکنالوجی کے لیے صارفین کی لوکیشن کی ضرورت نہیں ہوگی۔

دستاویز میں بتایا گیا کہ ڈیوائس میں موجود آن بورڈ ریڈیوز مختصر رینج پر ایک گمنام آئی ڈی کو ٹرانسمیٹ کریں گے، اور سرورز صارف کے آخری 14 دن کی آئی ڈیز کو دیگر ڈیوائسز سے میچ کریں گے، جس کے ہیے دونوں ڈیوائسز کتنے وقت تک پاس رہی اور کتنی قریب رہی، جیسے امور کو دیکھا جائے گا۔

اگر یہ معلوم ہوگیا کہ صارف سے رابطے میں رہنے والے دوسرے فرد میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، تو اسے نوٹیفکیشن سے آگاہ کیا جائے گا ، تاکہ وہ ٹیسٹ اور قرنطینہ جیسے اقدامات پر عمل کرسکے۔

اس پروجیکٹ پر دونوں کمپنیوں نے 2 ہفتے قبل کام شروع کیا تھا اور یہ 2 مراحل پر کام کرے گا۔

پہلے مرحلے میں اے پی آئی کو مئی کے وسط میں جاری کیا جائے گا جو کہ آئی او ایس اور اینڈرائیڈ ایپس کے ساتھ کام کرے گا۔

کمپنیوں کا کہنا ہے کہ اس اے پی آئی کا استعمال اور ایپس سے منسلک کرنا آسان ہے اور اس کی مدد سے ایپس صارفین کی مرضی سے کانٹیکٹ ٹریسنگ کرسکیں گی۔

دوسرے مرحلے میں زیادہ موثر طریقے کو استعمال کرکے آپریٹنگ سسٹم کی سطح پر کانٹیکٹ ٹریسنگ کی جائے گی، جس کے لیے کسی ایپ کی ضرورت نہیں ہوگی۔

یہ مرحلہ آئندہ چندماہ میں شروع ہوگا۔

اس مقصد کے لیے یہ کمپنیاں یہ ٹول کسی ملک میں حکومتی ایپ کا حصہ بنا کر اس وائرس کے پھیلاؤ کی ٹریکنگ کریں گی اور متاثرہ افراد بھی اپنی بیماری کی تصدیق اس ایپ کے سرور پر کرسکیں گے تاکہ ان کے رابطے میں رہنے والے افراد اس سے آگاہ ہوسکیں۔

اب دونوں کمپنیوں نے اس عمل کے کچھ حصوں کی جھلکیاں جاری کی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ فی الحال یہ تصاویر صرف حوالے کے لیے جاری کی گئی ہیں کیونکہ ایپس کی تیاری کا کام حکومتی طبی اداروں کا ہے، ایپل اور گوگل کا نہیں۔

فوٹو بشکریہ ایپل
فوٹو بشکریہ ایپل

مگر ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ایپس میں صارفین کے بلیوٹوتھ کوڈز کے ریکارڈ اور ٹرانسمیٹ کی منظوری کیسے حاصل کی جائے گی۔

ایک اسکرین شاٹ میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ایپس اس وقت کام کریں گی جب ایک صارف میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوجائے گی، جس کے لیے صارفین کو ایک منفرد کوڈ انٹر کرنا ہوگا جو طبی انتظامیہ کی جانب سے یا کووڈ 19 ٹیسٹنگ لیب کی جانب سے فراہم کیا جائے گا، درحقیقت یہ امکان بھی ہے کہ متاثرہ فرد کو ٹیسٹ کا تنیجہ نوٹیفکیشن سے معلوم ہو۔

فوٹو بشکریہ ایپل
فوٹو بشکریہ ایپل

ایک اور اسکرین شاٹ میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ایک نوٹیفکیشن متاثرہ فرد کے رابطے میں رہنے والوں کے پاس جائے گا۔

فوٹو بشکریہ ایپل
فوٹو بشکریہ ایپل

تبصرے (0) بند ہیں