لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔
لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

آج کل افغانستان کے حوالے سے جو سوال سب سے زیادہ پوچھا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کمزور امن عمل میں سست روی پیدا کرے گی یا پھر اس میں تیزی لائے گی۔

اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ تعطل کے شکار اس عمل کا عالمی وبا سے کچھ زیادہ لینا دینا نہیں البتہ اس کا تعلق ہے تو صرف افغان فریقین میں مفادات کی جنگ اور افغانستان میں مقامی مذاکراتی عمل پر جمی برف سے ہے۔

کورونا وائرس کی وبا سے تاحال افغانستان سے مرحلہ وار امریکی انخلا کا عمل بھی کچھ زیادہ متاثر نہیں ہوا ہے۔ بات چیت کے ذریعے امریکا کی اس طویل جنگ کے لیے ضروری داخلی مذاکرات کا عمل آگے بڑھتا ہے یا نہیں، یہ الگ معاملہ ہے، لیکن یاد رہے کہ امریکا کے لیے تو یہی بہتر ہے کہ وہ دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے کے ساتھ کھڑا رہے۔

یہ اشارے مل رہے ہیں کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے عمل کو اسی طرز پر آگے بڑھایا جا رہا ہے جو فروری میں دوحہ میں امریکا طالبان معاہدے کے تحت طے پایا گیا تھا۔ گرمیوں کے آتے آتے امریکی فوجی اہلکاروں کی تعداد گھٹ کر 8 ہزار 600 تک محدود ہوجائے گی۔ چند رپورٹس کے مطابق امریکی افواج کی جانب سے فوجی اڈوں کو بھی خالی کرنے کا عمل پہلے ہی جا ری ہے۔

دوسری جانب اعلیٰ امریکی سفارتکاروں نے افغان فریقین (حکومت اور طالبان) پر داخلی مذاکرات میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ یعنی قیدیوں کے تبادلے پر برف پگھلانے کے لیے لچک کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا ہے۔

دوحہ معاہدے کے تحت دونوں فریقین کو ایک مخصوص تعداد میں قیدیوں کو رہائی دینی تھی۔ اس وقت کابل کے زیرِ حراست 5 ہزار قیدی ہیں اور طالبان کی قید میں ایک ہزار قیدی ہیں۔ قیدیوں کی رہائی کا عمل پورا ہونے کے بعد داخلی افغان مذاکرات کے عمل کا آغاز 8 ہفتے قبل شروع ہونا تھا، لیکن ایسا اب تک نہیں ہوسکا ہے۔

اب تک افغان حکومت کی جانب سے 550 اور طالبان کی جانب سے 112 قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے۔ تاہم اس تبادلے کی شرائط پر اختلافات پیدا ہونے کے بعد یہ عمل ادھورا رہ گیا ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ دیگر قیدیوں کو داخلی مذاکراتی عمل کے بعد ہی رہا کریں گے۔ انہوں نے کابل پر سوچی سمجھی سازش کے تحت تاخیر کا الزام لگایا اور کورونا وائرس کے باعث قیدیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

دوسری طرف صدر اشرف غنی بضد ہیں کہ وہ مزید قیدیوں کی رہائی سے پہلے تشدد میں کمی دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ابتدائی طور پر 1500 قیدیوں کو آزاد کرنے کے لیے راضی ہیں لیکن بتدریج۔ اشرف غنی کے لیے یہ معاملہ مذاکراتی عمل میں اپنا پلڑا بھاری رکھنے کا اہم ذریعہ بنا ہوا ہے اور انہوں نے اس کے ذریعے پورے عمل کو گھسیٹنے کی کوشش کی ہے۔

ان کی جانب سے دوحہ عمل کی کامیابی میں دلچسپی نہ رکھنے والی چند مخصوص علاقائی قوتوں سے رجوع کرنے کی کوششوں سے بھی اس خیال کو تقویت ملتی ہے۔ ایک علاقائی ریاست تو ایک الگ امن عمل کی خواہاں ہے۔ طالبان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ جنگ بندی کو داخلی مذاکرات سے مشروط نہیں بلکہ اس کا حصہ بنایا جائے۔

تعطل ختم کروانے کے لیے امریکی سفارتکار متحرک ہیں اور واشنگٹن نے اس مسئلے کے حل کے لیے اہم رہنماؤں سے رابطے بھی کیے ہیں۔

صدر ٹرمپ کی قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی سے حال ہی میں ہونے والی ٹیلی فون پر گفتگو اور مارچ کے آخر میں سیکرٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو کا دورہ کابل انہی کوششوں کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح گزشتہ ماہ امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد اور افغانستان میں امریکی و نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل آسٹن ملر کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔

افغانستان میں تشدد کے کسی حد تک بڑھتے رجحان کے بیچ راولپنڈی میں ہونے والی ملاقاتوں کا مقصد افغان تنازع کے سیاسی حل کی جانب پاکستان کے عزم کے مطابق تشدد میں کمی لانے سمیت امن عمل سے جڑے مختلف معاملات میں مدد کا حصول تھا۔

افغانستان میں لڑائی کی شدت میں اضافے اور طالبان کی جانب سے رمضان میں جنگ بندی کے مطالبوں کو ماننے سے انکار نے پریشانی میں مبتلا امریکی عہدیداروں میں ہلچل پیدا کردی ہے اور وہ افغان قومی سلامتی افواج پر طالبان کے بڑے حملوں کو روکنے اور اسے مزید کمزور ہونے سے بچانے کی کوششوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔

طالبان کے بڑے حملوں کا مقصد عسکری دباؤ میں اضافہ کرتے ہوئے افغان داخلی مذاکراتی عمل میں اپنی اہمیت کو تقویت پہنچانا تھا اور ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ امید بھی باندھی کہ اس طرح افغان قومی سلامتی کی افواج کا پورا ڈھانچہ ہی گر جائے گا یا پھر وہ لسانی بنیادوں پر تقسیم ہوجائے گی۔

اس حکمتِ عملی کے نتیجے میں امریکا کی حمایتی افغان قومی سلامتی کی افواج نے طالبان پر اپنے حملوں میں شدت پیدا کردی ہے۔ یہ دیکھ کر طالبان نے غیر جنگی علاقوں سے حملے ہونے پر امریکا پر 29 فروری کے معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ میں مارچ میں تشدد کی لہر میں آنے والی شدت اور اس کے نتیجے میں ہونے والی عام شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

امریکی سفارتکار اب طالبان کو اشرف غنی کی جانب سے (5 ہزار کے بجائے) 2 ہزار قیدیوں کی رہائی اور داخلی امن مذاکرات کے لیے قیدیوں کے مکمل تبادلے کا انتظار نہ کرنے پر قائل کرنے کی کوششوں پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

مئی کے ابتدائی دنوں میں عمل کے آغاز کا ارادہ کیا گیا ہے۔ دونوں افغان فریقین کے درمیان حائل وسیع خلیج اور متضاد مفادات کو مدِنظر رکھیں تو یہ ایک بڑا ہی کٹھن ارادہ دکھائی دیتا ہے۔

قیدیوں کے مسئلے پر تنازع دراصل بہت کچھ آشکار کرتا ہے۔ یہ دونوں فریقین کی جانب سے ہر اس اہم بات کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ کو ظاہر کرتا ہے جو ایک دوسرے کے لیے اہم ہے اور اس نے کٹھن دشواریوں کی دُور اندیشی کردی ہے جو اس مسئلے کے حل ہونے کے باوجود بھی آگے پیش آسکتی ہیں۔

اگرچہ امن عمل میں بڑی رکاوٹ قیدیوں کے تبادلے کے معاملے میں اختلاف ہے لیکن صدر اشرف اغنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے بیچ کا تنازع بھی اس کے امکانات کو زک پہنچا رہا ہے۔ امریکا نے افغان صدارت کے دونوں دعویداروں کے درمیان مفاہمت کروانے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ امداد بند کرنے کی دھمکیاں بھی دی ہیں۔ یورپی یونین نے بھی وارننگ دی ہے کہ اگر یہ تنازع ختم نہیں ہوا تو مستقبل میں فنڈنگ متاثر ہوسکتی ہے۔

چند حوصلہ افزا آثار کے باوجود دونوں اب بھی مخلوط اقتداری پلان پر متفق نہیں ہو پائے ہیں، جو اختیارات عبداللہ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ اشرف غنی دینا نہیں چاہتے۔

افغان امن عمل میں تیزی لانے کے لیے امریکی کوششوں کے پیچھے ٹرمپ کی واضح اور بارہا بیان کردہ یہ خو اہش کارفرما ہے کہ وہ امریکہ کے لیے بھاری جانی اور مالی نقصان کا باعث بننے والی اس طویل جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

چونکہ اس سال امریکا میں عام انتخابات منعقد ہونا ہیں لہٰذا اگر امن عمل آگے نہیں بڑھتا تو اس کی خرابی ٹھیک کرنے کی کوشش کرنے سے زیادہ ٹرمپ کی توجہ اپنے فوجیوں کی وطن واپسی پر مرکوز ہوگی۔ اور یہ بھی خبریں سننے کو مل رہی ہیں کہ ٹرمپ کی بے صبری بڑھ رہی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ انخلا کے عمل میں مزید تیزی لائی جائے۔

افغانستان میں غیر یقینی کی صورتحال پاکستان کے لیے سنگین نتائج برآمد کرسکتی ہے۔ اسلام آباد کو امن عمل میں اپنی ہر ممکن کوشش فراہم کرنے کے ساتھ دیگر ممکنہ حالات کی دُور اندیشی کرنی ہوگی اور ان سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔

دوسری طرف پاکستان کو افغانستان کے ساتھ اپنے مشکل تعلقات کی تاریخ سے سبق حاصل کرتے ہوئے وقت کا فائدہ اٹھا کر تمام افغان گروہوں تک اپنے سیاسی اور سفارتی اثر و رسوخ کو بڑھانا چاہیے۔


یہ مضمون 4 مئی 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں