چینی برآمد کرنے کے فیصلے پر وزیراعظم سے نہیں مجھ سے سوال کیا جائے، اسد عمر

اپ ڈیٹ 11 مئ 2020
اسد عمر نے کہا کہ سوال وزیراعظم سے نہیں مجھ سے پوچھا جائے—فائل/فوٹو:ڈان
اسد عمر نے کہا کہ سوال وزیراعظم سے نہیں مجھ سے پوچھا جائے—فائل/فوٹو:ڈان

وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور خصوصی اقدامات اسد عمر نے کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے مطالبے پر چینی تحقیقاتی کمیشن مجھے ضرورت بلائے اور برآمد سے متعلق کوئی سوال ہے تو وزیر اعظم سے نہیں بلکہ مجھ سے پوچھا جائے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں اسد عمر نے کہا کہ 'شاہد خاقان نے مطالبہ کیا ہے کے کمیشن مجھے اور وزیراعظم کو چینی برآمد کرنے کی اجازت کے فیصلے کے بارے میں پوچھ گچھ کے لیے بلائے'۔

مزید پڑھیں:چینی بحران: وزیر اعظم، ای سی سی چیئرمین کرپٹ اور نااہل ہیں، شاہد خاقان عباسی

ان کا کہنا تھا کہ 'کابینہ نے یہ فیصلہ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کی سفارش پر کیا تھا، اگر سوال ہے تو مجھ سے پوچھا جائے وزیراعظم سے نہیں'۔

اسد عمر نے کہا کہ 'کمیشن سے درخواست ہے کے مجھے ضرور بلایا جائے'۔

واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے کہا تھا کہ وزیر اعظم اور ای سی سی کے چیئرمین کرپٹ اور نااہل ہیں کیونکہ ای سی سی اور کابینہ کے فیصلے کے بعد چینی کی قیمتیں بڑھیں۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) ہیڈکوارٹرز اسلام آباد میں چینی بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے کمیشن کے سامنے پیش ہونے کے بعد خرم دستگیر کے ہمراہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا تھا کہ 'پارٹی کی ہدایت پر شوگر انکوائری کمیشن میں پیش ہوئے اور کمیشن کے سامنے کوئی سیاسی بات نہیں کی'۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'چینی کے نام پر پاکستانی قوم پر 100 ارب روپے کا ڈاکا مارا گیا بلکہ ڈاکا جاری ہے، ای سی سی اور کابینہ کے فیصلے کے بعد چینی کی قیمتیں بڑھیں'۔

شاہد خاقان عباسی نے مطالبہ کرتے ہوئے کمیشن کو کہا کہ چینی بحران سے متعلق وزیر اعظم اور کابینہ کے اراکین کو بلا کر پوچھیں۔

یہ بھی پڑھیں:چینی بحران: تحقیقاتی کمیشن نے شاہد خاقان عباسی کو پیش ہونے کی اجازت دے دی

اس سے قبل چینی بحران کے تحقیقاتی کمیشن نے شاہد خاقان عباسی کو ثبوت جمع کرانے کے لیے پیش ہونے کی اجازت دی تھی۔

یاد رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس کے بعد وزیر اعظم عمران نے عوام کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اعلیٰ سطح کے کمیشن کی جانب سے آڈٹ رپورٹ کا تفصیلی نتیجہ آنے کے بعد گندم اور چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

چینی، آٹے کے بحران سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ

یاد رہے کہ چینی کے بحران پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا کی سربراہی میں تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔

یہ بھی پڑھیں:حقائق مسخ کرنے سے وزیراعظم، وزیراعلی پنجاب کی چوری چھپ نہیں سکتی،مریم اورنگ زیب

رپورٹ کے مطابق اس کے بعد سب سے زیادہ فائدہ آر وائی کے گروپ کو ہوا جس کے مالک مخدوم خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار خان ہیں اور انہوں نے 18 فیصد یعنی 45 کروڑ 20 روپے کی سبسڈی حاصل کی۔

اس گروپ کے مالکان میں چوہدری منیر اور مونس الہٰی بھی شامل ہیں جبکہ اس کے بعد تیسرے نمبر پر زیادہ فائدہ المُعیز گروپ کے شمیم احمد خان کو 16 فیصد یعنی 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی صورت میں ہوا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمیم احمد خان کی ملکیت میں موجود کمپنیوں نے گزشتہ برس چینی کی مجموعی پیداوار کا 29.60 فیصد حصہ برآمد کیا اور 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔

کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق رواں سال گنے کی پیداوار گزشتہ سال کے مقابلے میں درحقیقت ایک فیصد زیادہ ہوئی، پچھلے سال کے مقابلے میں کم رقبے پر گنے کی کاشت کی گئی'۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ برآمد کنندگان کو 2 طرح سے فائدہ ہوا، پہلا انہوں نے سبسڈی حاصل کی دوسرا یہ کہ انہوں نے مقامی مارکیٹ میں چینی مہنگی ہونے سے فائدہ اٹھایا جو دسمبر 2018 میں 55 روپے فی کلو سے جون 2019 میں 71.44 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔

ملک میں چینی کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں 2018 میں چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں پنجاب کی جانب سے 3 ارب روپے کی سبسڈی دینے کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں:وزیراعظم کی عوام کو گندم، چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی

رپورٹ کے مطابق 2018 میں تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو اس وقت میں ملک میں چینی ضرورت سے زیادہ تھی، اس لیے مشیر تجارت، صنعت و پیداوار کی سربراہی میں شوگر ایڈوائزری بورڈ (ایس اے بی) نے 10 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی سفارش کی جس کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے بھی منظوری دی، حالانکہ سیکریٹری فوڈ سیکیورٹی نے اگلے سال گنے کی کم پیداوار کا امکان ظاہر کرتے ہوئے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

تاہم چینی کی برآمد کی اجازت دے دی گئی اور بعد میں پنجاب حکومت نے اس پر سبسڈی بھی دی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوری سے مئی 2019 تک پنجاب میں چینی کی برآمد پر سبسڈی دی جاتی رہی، اس عرصے میں مقامی مارکیٹ میں چینی کی فی کلو قیمت 55 روپے سے بڑھ کر 71 روپے ہوگئی، لہٰذا چینی برآمد کرنے والوں کو دو طریقوں سے فائدہ ہوا۔

تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایک یہ کہ انہوں نے 3 ارب روپے کی سبسڈی حاصل کی جبکہ مقامی مارکیٹ میں قیمت بڑھنے کا بھی انہیں فائدہ ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں