افغانستان: گردیز میں دھماکے سے 5 افراد ہلاک، طالبان نے ذمہ داری قبول کرلی

اپ ڈیٹ 17 مئ 2020
دھماکے میں ایک درجن سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے—فائل فوٹو: رائٹرز
دھماکے میں ایک درجن سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے—فائل فوٹو: رائٹرز

افغانستان میں امن کے لیے ہونے والے معاہدے کے باوجود پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے اور تازہ واقعے میں گردیز شہر میں بم دھماکے سے 5 افراد ہلاک ہوگئے۔

برطانوی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق مشرقی افغانستان کے شہر گردیز میں عدالت کے قریب دھماکا خیز مواد سے بھرے ٹرک کو دھماکے سے اڑادیا گیا جس کے نتیجے میں 5 افراد ہلاک ہوئے جبکہ اس کی ذمہ داری طالبان جنگجوؤں کی جانب سے قبول کرلی گئی۔

خیال رہے کہ یہ حملہ اس واقعے کے 2 روز بعد سامنے آیا جس میں افغانستان میں جنازے اور میٹرنٹی ہوم پر ہونے والے حملوں میں خواتین اور نومولود بچوں سمیت 56 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

افغان وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آرائیں کا کہنا تھا کہ 'گردیز شہر کے گنجان آباد علاقے میں فوجی عدالت کے قریب ایک کار بم دھماکا ہوا، جس میں درجنوں افراد کے ہلاک و زخمی ہونے کا خدشہ ہے'۔

مزید پڑھیں: افغان فورسز کے حملوں کا جواب دینے کیلئے مکمل تیار ہیں، طالبان

طارق آرائیں نے اس حملے کی ذمہ داری طالبان اور کالعدم لشکر طیبہ کے اتحادی حقانی نیٹ ورک پر عائد کی تاہم یہ گروپ بہت کم حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔

دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی۔

ادھر پکتیا صوبے، جہاں گردیز شہر موجود ہے، وہاں کے فوجی ترجمان ایمل خان مہمند کا کہنا تھا کہ یہ دھماکا بارودی مواد سے بھرے ٹرک کے ذریعے کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ اس دھماکے کے نتیجے میں 5 افراد ہلاک جبکہ 14 زخمی ہوگئے۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں افغان دارالحکومت کابل میں میٹرنٹی ہسپتال میں مسلح افراد کے حملے میں نومولود بچوں اور ماؤں سمیت 24 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ اسی روز مشرقی علاقے ننگاہار میں جنازے میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں 32 افراد ہلاک ہوگئے تھے جبکہ اس کی ذمہ داری داعش کی جانب سے قبول کی گئی تھی۔

افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے ان حملوں کی مذمت کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ دفاعی انداز کے بجائے جارحانہ انداز اپنایا جائے۔

علاوہ ازیں طالبان کی جانب سے ان حملوں میں کسی بھی طرح کے ملوث ہونے کی تردید کی گئی تھی لیکن حکومت کی جانب نے گروپ پر الزام لگایا گیا کہ وہ ایسے ماحول کو فروغ دے رہا جس سے دہشت گردی پروان چڑھتی ہے۔

یہاں واضح رہے کہ افغان صدر کی جانب سے فوج کو جارحانہ انداز اپنانے کا کہنے کے بعد طالبان نے بھی کہا تھا کہ وہ افغان سیکیورٹی فورسز کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔

مسلح دہشت گرد گروپوں کے حملے میں خواتین اور نومولود بچوں کی موت کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے اپنی فوج کو دہشت گرد گروپوں کے خلاف جارحانہ انداز میں کارروائی کا حکم دیا تھا۔

یاد رہے کہ رواں سال 29 فروری کو امریکا اور طالبان کے درمیان تاریخی معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکا اور غیر ملکی افواج پر حملے نہیں کریں گے اور قیدیوں کے تبادلے کے بدلے کابل انتظامیہ سے امن مذاکرات شروع کریں گے۔

اس کے بدلے میں امریکا اور غیر ملکی افواج نے 14 ماہ میں افغان سرزمین چھوڑنے کا وعدہ کیا تھا۔

طالبان اور امریکا میں معاہدہ ہوا تھا کہ امریکی افواج طالبان پر حملہ نہیں کریں گی لیکن اگر افغان فورسز پر حملہ کیا گیا تو وہ طالبان پر حملے کا حق رکھتے ہیں۔

طالبان کی جانب سے غیر ملکی افواج پر حملوں میں نمایاں کمی آئی لیکن حالیہ عرصے میں طالبان کی جانب سے افغان سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں کئی گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور اوسطاً روزانہ 55 حملے کیے جا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: میٹرنٹی ہوم اور جنازے میں حملوں سے درجنوں افراد ہلاک

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال 29 فروری کو معاہدے پر دستخط کے بعد سے اب تک طالبان ساڑھے 4 ہزار سے زائد حملے کر چکے ہیں اور اس میں سب سے زیادہ وہ صوبے متاثرہ ہوئے ہیں جہاں اب تک کورونا وائرس کے سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

دوسری جانب دونوں فریقین میں قیدیوں کے تبادلے کا معاملہ بھی التوا کا شکار ہے کیونکہ افغان صدر اشرف غنی ایک ساتھ پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کو تیار نہیں۔

اب تک افغان حکومت ایک ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کر چکی ہے جبکہ اس کے جواب میں طالبان نے 100 حکومتی قیدیوں کو رہا کیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں