حکومت کا ایس او پیز پر عمل نہ کرنے والے علاقوں میں لاک ڈاؤن سخت کرنے پر غور

اپ ڈیٹ 15 مئ 2020
بہت سے علاقوں میں دکاندار اور عوام، حکومتی ایس او پیز اور ہدایات پر عمل نہیں کررہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
بہت سے علاقوں میں دکاندار اور عوام، حکومتی ایس او پیز اور ہدایات پر عمل نہیں کررہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: ملک بھر میں کووِڈ 19 کے بڑھتے ہوئے کیسز اور عوام کی جانب سے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) اور کورونا وائرس کی روک تھام کی احتیاطی تدابیر کی خلاف ورزی کی رپورٹس پر حکومت نے صرف ان مقامات پر جہاں اس طرح کی خلاف ورزیاں زیادہ ہورہی ہوں لاک ڈاؤن سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بات وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے وزیراعظم کی سربراہی میں کووِڈ 19 کی صورتحال اور عوامی مقامات پر ایس او پیز اور احتیاطی تدابیر کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے منعقدہ اجلاس میں شرکت کے بعد ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں مزید 30 افراد کے کورونا وائرس کے باعث انتقال کر جانے کے بعد مجموعی تعداد 791 ہوگئی ہے۔

دوسری جانب ایک روز کے دوران سندھ میں 758، پنجاب میں 333، اسلام آباد میں 63، خیبرپختونخوا میں 198، بلوچستان میں 71، گلگت بلتستان میں 7 اور آزاد کشمیر 3 نئے کیسز سامنے آنے کے بعد کورونا متاثرین کی تعداد 35 ہزار 384 سے بڑھ کر 36 ہزار 758 تک جا پہنچی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں کورونا وبا سے 36 ہزار 788 افراد متاثر، اموات 791 ہوگئیں

تاہم وزیراعظم کی سربراہی میں ہوئے اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان علیانی کی عدم موجودگی نمایاں تھی۔

اجلاس کے حوالے سے جاری اعلامیے کے مطابق اس میں وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار اور وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان نے ویڈیو لنک کے ذریعے اور وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، وزیر اقتصادی امور حماد اظہر، سینیٹر شبلی فراز، وزیر تحفظ خوراک سید فخر امام، مشیرِ خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد، معاون خصوصی لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ، مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا، مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف، چیئرمین این ڈی ایم اے، وزیر اعظم کے فوکل پرسن برائے کووڈ 19 ڈاکٹر فیصل و دیگر سینئر افسران نے اجلاس میں شرکت کی۔

اس موقع پر سینیٹر شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ’ہم عوام کو رعایت دے رہے ہیں کیوں کہ مارکیٹس اور مقامات کافی عرصے بعد کھلی ہیں‘۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ انہیں ایسی رپورٹس موصول ہوئی ہیں کہ بہت سے علاقوں میں دکاندار اور عوام، حکومتی ایس او پیز اور ہدایات پر عمل نہیں کررہے۔

مزید پڑھیں: ’پاکستان میں غربت کی شرح بڑھنے، لاکھوں افراد کے بیروزگار ہونے کا خدشہ‘

شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ’ہم باریک بینی سے صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں، اور بہت جلد اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ کن علاقوں کو مکمل بند کیا جائے تاہم جن علاقوں میں زیادہ تر عوام احتیاطی تدابیر اپنا رہے ہیں وہاں موجودہ انتظامات جاری رہیں گے۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ حکومت پنجاب نے ایس او پیز کی خلاف ورزی کی اطلاعات پر لاہور میں کچھ شاپنگ سینٹرز اور مارکیٹس کو بند کردیا ہے۔

اس معاملے کو ’مشکل‘ قرار دیتے ہوئے انہوں نے ایس او پیز کی خلاف ورزی پر جرمانوں اور عوام کو سزا کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ غریب افراد بالخصوص یومیہ اجرت والوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی

وزرائے اعلیٰ کی غیر حاضری کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات نے کہا کہ یہ قومی رابطہ کمیٹی کا باضابطہ اجلاس نہیں تھا اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور پنجاب کو ان کے صوبوں سے متعلق کچھ امور پر بات چیت کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔

اجلاس میں شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ لاک ڈاؤن کورونا کا حل نہیں بلکہ عارضی اقدام ہے اور حکومت اپنے فیصلے زمینی حقائق اور عوام کی حالت زار دیکھ کر کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان سمیت 140 عالمی رہنماؤں کا کورونا ویکسین کی مفت فراہمی کا مطالبہ

ان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کا عوام کی زندگیوں پر منفی اثر پڑا ہے اور اس غیر معمولی صورتحال میں ہمیں بھوک اور وبا کی روک تھام کے حوالے سے حفاظتی اقدامات میں توازن برقرار رکھنا ہے۔

انہوں نے ایک مرتبہ پھر دہرایا کہ ہماری آبادی کو جس قدر خطرہ لاک ڈاؤن سے ہے اس سے کہیں زیادہ بھوک و افلاس ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ اگر ہماری معیشت بحال نہیں ہوئی تو غریب اور نادار طبقے کی مشکلات بھی بڑھیں گی ہمیں ادراک ہے کہ کاروبار کی بندش سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے لیکن یہ اقدام نہایت مجبوری میں اٹھانا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس ایک حقیقت ہے اور حکومت کو عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر مجبور کرنے کے بجائے آگاہی دینے کی ضرورت ہے انہوں نے پولیس کو ہدایت کی زبردستی کرنے کے بجائے دوستانہ رویہ اپنائیں۔

تبصرے (0) بند ہیں