ملک کے ٹیکس حکام کو واضح کردیا گیا ہے کہ اگلے سال کے مالی بل سے متعلق تجاویز حکومت کے وژن سے مطابقت نہیں رکھتیں اور اس کو مزید آسان بنانے کی ضرورت جبکہ کاروبار میں آسانی پیدا کرنے اور لاگت میں کمی کو یقینی بنایا جائے۔

مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے اگلے مالی سال کے بجٹ سے متعلق ابتدائی اجلاس میں بجٹ تیار کرنے والے وزارت خزانہ کے اراکین اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو واضح پیغام دے دیا ہے۔

حکومت جون کے پہلے ہفتے میں بجٹ پیش کرنے کی تیاری کررہی ہے۔

مزید پڑھیں:’پاکستان میں غربت کی شرح بڑھنے، لاکھوں افراد کے بیروزگار ہونے کا خدشہ‘

عبدالحفیظ شیخ کی ایف بی آر کو دی گئی ہدایات سے ایک عہدیدار نے آگاہ کیا جس کے مطابق مشیرخزانہ نے کہا کہ 'ایف بی آر کے بجٹ سے متعلق خیالات حکومت کے وژن کے مطابق نہیں ہیں جس کے تحت ٹیکس اور ٹیرف میں آسانی پیدا کرنا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم فہرست میں اتنے سارے ٹیکسز کیوں شامل کررہے ہیں جن کا حاصل بہت کم ہے یا کچھ نہیں ہے جبکہ ٹیکس دہندگان کے لیے بڑی رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم ٹیکسز کی تعداد کو 4 یا 5 تک کم کیوں نہیں کرسکتے تھے جن سے محصولات بھی زیادہ ہوں اور دوسری چیزوں کا خاتمہ ہو، اس طرح بجٹ کو بجائے ایک خوف ناک کہانی بنانے کے سادہ پالیسی دستاویز بنادیا جائے'۔

اطلاعات کے مطابق عبدالحفیظ شیخ نے متعدد ٹیکسز میں اضافے کی تجویز بھی مسترد کردی اور کہا کہ یہ ٹیکس کی شرح میں اضافے کا وقت نہیں کیونکہ خطرناک معاشی مسائل ہیں جس کے لیے متوازن رویے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'مسائل کو آسان کرنے اور تنقید کو ختم کرنے کے لیے حکومت کے فلسفے اور ارادے کے مطابق بجٹ تیار کیا جائے'۔

یہ بھی پڑھیں:عالمی بینک: کورونا وائرس سے متاثر پاکستان کیلئے 20 کروڑ ڈالر کا امدادی پیکج منظور

اجلاس میں مشیر تجارت عبالرزاق داؤد، مشیر اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین اور وزیر صنعت حماد اظہربھی شریک تھے جہاں عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ کسٹم ڈیوٹی، ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی اور ریگیولیٹری ڈیوٹی جیسے کئی ٹیکسز اور ان کے فوائد پر آپ کو وضاحت دینی پڑتی ہے۔

مشیر خزانہ کی زیر صدارت اس اجلاس کا بنیادی مقصد رواں ہفتے کے آغاز میں وزیراعظم کے ساتھ حکومتی معاشی ٹیم کے اجلاس کا تسلسل تھا جس میں ٹیکسز کی تعداد کو کم کرنے، محصولات کو بڑھانے اور عددی اور معیاری دونوں لحاظ سے بہتری لانے پر زور دیا گیا تھا۔

عبدالحفیظ شیخ نے سختی سے کہا کہ کیا ہم اسمگلنگ کو زندگی کا حصہ مان چکے ہیں اور رجسٹرڈ اور دستاویزی کاروبار کو تحفظ دینا نہیں چاہتے، ہماری عمل داری کہاں ہے'۔

انہوں نے اگلے اجلاس میں مختلف سطح کی 40 ٹیکسز اور ان کا حجم، اثرات اور محصولات کے ساتھ ساتھ متعلقہ شعبے میں لاگت اور ان کا تجزیہ پیش کرنے کا حکم دیا تاکہ ٹیکس کے گنجلک اعداد سے بچا جاسکے لیکن ضروری ٹیکس کو برقرار رکھا جائے۔

ٹیکس حکام کو بتایا گیا کہ وہ ٹیکس اقدامات کو جائز ثابت کرنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا نام نہیں لے سکتے ہیں یا اصلاحات کا عمل کا رخ بدل نہیں سکتے ہیں۔

انہیں کہا گیا کہ وضاحت، سرمایے کے حصول اور معیشت پر ان کے اثرات اور ٹیکس دہندگان کی لاگت کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔

مزید پڑھیں:کورونا وائرس: پاکستان کی شرح نمو میں مزید 2 فیصد کمی کی پیشگوئی

ایف بی آر کو آگاہ کیا گیا کہ اگلے سال تقریباً 5.1 کھرب روپے کا ہدف پورا کرنا ہوگا جو رواں مالی سال 2020 کے اندازے 3.9 کھرب روپے سے 30 فیصد زیادہ ہے۔

وزارت تجارت کو ہدایت کی گئی کہ اگر وہ موجودہ ڈیوٹی 11 فیصد سے 1.5 فیصد سے کم کرنا چاہتی ہے تو پھر بہتر ہوگا کہ کاروبار میں رکاوٹ سے بچنے کے لیے اس کو صفر کردیا جائے۔

اجلاس میں وزارت تجارت کو ایک ہفتے کے اندر نظرثانی کرکے حکمت عملی دوبارہ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی۔

مزید کہا گیا کہ کاروبار سے تعلق رکھنے والے معاملات کو الگ سے دیکھا اور اسی طرح ود ہولڈنگ ٹیکسز کی تعداد اور اسٹیجز کو کم کرنا چاہیے۔

حکومت نے فیصلہ کرلیا ہے کہ رواں برس ترقیاتی پروگرام کو حتمی شکل دینے کے لیے کمیٹیوں کے اجلاس کو منعقد نہ کیا جائے اور اس کے لیے 600 ارب روپے کا بجٹ منظوری کے لیے براہ راست قومی اقتصادی کونسل کے سامنے رکھا جائے گا جو آئی ایم ایف سے مذاکرات کے مطابق مالی سال 2020 میں کووڈ-19 کے لیے رکھے گئے 701 ارب روپے سے کم ہوگا۔


یہ خبر 15 مئی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں