چین نے دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے متعلق بھارتی اعتراض پر جواب دیا ہے کہ چین اور پاکستان کے مابین معاشی تعاون کا مقصد مقامی معاشی نمو کو بڑھانا ہے۔

بیجنگ میں ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاولی جیان نے واضح کیا کہ مسئلہ کشمیر پر چین کا واقف مستقل ہے۔

مزید پڑھیں: دیامر بھاشا، مہمند ڈیم کی تعمیر کا آغاز 2019 میں ہوگا، چیئرمین واپڈا

خیال رہے کہ گزشتہ روز بھارت کے وزارت خارجہ امور نے اعتراض کیا تھا کہ ’جموں وکشمیر اور لداخ کے وسطی علاقوں کا پورا علاقہ بھارت کا لازمی اور ناگزیر حصہ ہے اور رہے گا اور ہم نے بھارتی علاقوں میں پاکستان کے غیر قانونی قبضے اور تمام منصوبوں کی تعمیر پر پاکستان اور چین سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے‘۔

جس کے جواب میں ترجمان وزارت خارجہ ژاولی جیان نے کہا کہ پاکستان اور چین کے مابین معاشی سرگرمیوں سے مقامی معیشت بڑھے گی اور لوگوں کی معاشی زندگی بہتر ہونے سے سب کو فائدہ ہوگا۔

واضح رہے کہ واٹر اینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) نے دیامر بھاشا ڈیم پراجیکٹ کی تعمیر کے لیے پاور چائنا اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) پر مشتمل جوائنٹ وینچر کے ساتھ 442 ارب روپے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

اس سے قبل وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ نے سماجی اربطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'آج دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع کرنے کا اعلان پاکستان کی تمام نسلوں کے لیے تاریخی خبر ہے اور یہ ہماری معیشت کے لیے بھی بہترین ثابت ہوگا'۔

یہ بھی پڑھیں: دیامر بھاشا ڈیم حدبندی تنازع: فریقین سے 15 روز میں جواب طلب

خیال رہے کہ دیامر بھاشا ڈیم کے لیے زمین خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے درمیان واقع ہے، جس میں گلگت بلتستان کا علاقہ بھاشا اور کے پی کے کوہستان کا علاقہ دیامر شامل ہے۔

جس کے متعلق بھارت کا دعویٰ ہے کہ یہ متنازع علاقہ ہے، اس لیے کہ یہ مہاراجہ کشمیر کی سابق ریاست کا ایک حصہ تھا۔

عاصم سلیم باجوہ نے بتایا تھا کہ 'ڈیم کی تعمیر سے 16 ہزار 500 ملازمتیں اور 4 ہزار 500 میگاواٹ پن بجلی بھی پید اہوگی'۔

عاصم سلیم باجوہ کا کہنا تھا کہ منصوبے سے 12 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی بھی سیراب ہوگی جبکہ تربیلا ڈیم کی زندگی 35 برس بڑھ جائے گی۔

’ہم پاکستان کو کبھی بھی فراموش نہیں کریں گے‘

علاوہ ازیں چین نے پاکستان کے سینیٹ میں کورونا وائرس کے خلاف چین کی حمایت اور اس سے اظہار یکجہتی سے متعلق منظور کی جانے والی قرارداد کی بھی تعریف کی۔

چین کے وزارت خارجہ کے ترجمان نے پریس بریفنگ میں کہا کہ کورونا وائرس کے آغاز کے بعد سے ہی بیجنگ اور اسلام آباد نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے اور اس کے خلاف جنگ کے لیے مل کر کام کیا ہے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ: وائرس سے متاثرہ چین کے ساتھ اظہار یکجہتی کی قرارداد منظور

انہوں نے کہا کہ ہم کبھی بھی فراموش نہیں کریں گے کہ پاکستان نے وائرس کے خلاف چین کی لڑائی میں وسائل اور طبی سامان کی فراہمی میں مدد فراہم کی۔

انہوں نے کہا کہ چینی حکومت نے بھی پاکستان میں اپنی میڈیکل ٹیمیں بھیجی ہیں، متعدد گرانٹس دی ہیں اور معاشرے کے تمام شعبوں کو فعال کرنے کے لیے فنڈز فراہم کیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چین اور پاکستان اچھے دوست اور اچھے بھائی ہیں ہر مشکل گھڑی میں ساتھ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وائرس کو سرحدوں اور نسلوں کا نہیں معلوم، ہم اس مسئلے پر پاکستان کے مقصد اور منصفانہ پوزیشن کی انتہائی تعریف کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستان سمیت عالمی برادری کے ساتھ تعاون کر کے حتمی فتح حاصل کریں۔

مزیدپڑھیں: حکومت اور اپوزیشن سینیٹ اجلاس فروری کے اختتام تک جاری رکھنے پر متفق

خیال رہے کہ پاکستانی ایوانِ بالا دنیا کی پہلی پارلیمان ہے جس نے چین کے ساتھ اس قسم کی یکجہتی کا اظہار کیا، سینیٹ قرار داد میں لگن، ہمت اور حوصلے کے ساتھ اس وبا کا مقابلہ کرنے پر چین کی حکومت اور عوام کی تعریف بھی کی گئی۔

مذکورہ قرارداد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد حسین نے پڑھی جس میں کہا گیا تھا کہ ایوانِ بالا صدر شی جن پنگ کی مضبوط قیادت کو سراہتا ہے جو وائرس سے لڑنے کے لیے کامیاب آپریشن کی سربراہی کررہے ہیں۔

تعلقات منقطع کرنے کی امریکی دھمکی پر چین کا جواب

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دوطرفہ تعلقات منقطع کرنے کی دھمکی کے بعد چین نے امریکا پر زور دیا کہ وہ دوطرفہ امور پر بات چیت کرے اور کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں تعاون کو مضبوط بنائے۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے کہا کہ چین اور امریکا کی مستحکم ترقی دونوں ممالک کے عوام کے بنیادی مفادات میں ہے اور یہ عالمی امن اور استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔

مزید پڑھیں: چین اور امریکا کے درمیان کورونا وائرس کے حوالے سے لفظی جنگ میں تیزی

انہوں نے کہا کہ ’فی الحال، چین اور امریکا کو اس وبا کے خلاف تعاون کو مضبوط بنانے، وبا کو جلد سے جلد شکست دینے، مریضوں کا علاج کرنے اور معیشت اور پیداوار کو بحال کرنے پر زور دینا چاہیے لیکن اس کے لیے واشنگٹن کو بیجنگ سے ملاقات کرنی چاہیے۔

واضح رہے کہ ٹرمپ کی جانب سے چین کے خلاف بیانات میں سخت رویہ اختیار کیا گیا اور امریکی صدر نے کہا کہ ’بہت ساری چیزیں ہم کر سکتے ہیں، پورے تعلقات کو منقطع کرسکتے ہیں‘۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’اگر تعلق منقطع کردیا تو 500 ارب ڈالر کی بچت ہوگی'۔

انہوں نے کہا تھا کہ چینی صدر کے ساتھ ان کے تعلقات ’بہت اچھے‘ ہیں لیکن ’ابھی میں ان سے بات نہیں کرنا چاہتا‘۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ انتظامیہ کا چین سے صنعتی درآمدات پر مزید سختی کا منصوبہ

واضح رہے کہ امریکی انٹیلی جنس اداروں نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ چین نے اپنے ملک میں کورونا وائرس کی وبا کے پیمانے کو چھپا کر رکھا اور اس کے لیے کیسز اور اموات کی مجموعی تعداد پوری طرح ظاہر نہیں کی۔

علاوہ ازیں امریکی صدر بھی متعدد مرتبہ کورونا وائرس کے تناظر میں چین پر الزامات لگا چکے ہیں۔

جس کے بعد چین نے امریکی انٹیلی جنس کی اس رپورٹ کو مسترد کردیا تھا کہ بیجنگ کی جانب سے کورونا وائرس کی وبا کے حوالے سے معلومات کو چھپایا گیا۔

چین کے وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ امریکا کو چاہیے کہ وہ صحت کے معاملے پر سیاست کرنا چھوڑ دے اور اس کے بجائے اپنے لوگوں کی حفاظت پر توجہ دے۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس: چین کا اینیمیٹڈ ویڈیو کے ذریعے امریکا کا مذاق

ان کا کہنا تھا کہ کچھ امریکی حکام لوگوں کی توجہ ہٹانا چاہتے ہیں، درحقیقت ہم ان کے ساتھ اس بحث کا حصہ نہیں بننا چاہتے، مگر ہمیں لگتا ہے کہ اس حوالے وضاحت ضروری اور سچ سامنے آنا چاہیے۔

انہوں نے امریکی ردعمل کی رفتار پر سوال کیا تھا جب امریکا نے 2 فروری کو چین سے لوگوں کی آمد پر پابندی عائد کردی تھی، کیا کوئی مجھے بتاسکتا ہے کہ امریکا نے ان دو مہینوں میں کیا کچھ کیا؟'

تبصرے (0) بند ہیں