لاک ڈاؤن وفاقی قوانین کے خلاف نہیں، حکومت پنجاب

اپ ڈیٹ 17 مئ 2020
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ ججز کے بینچ کیس کی سماعت کی۔ فائل فوٹو:سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ ججز کے بینچ کیس کی سماعت کی۔ فائل فوٹو:سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ پنجاب متعدی امراض (روک تھام اور کنٹرول) آرڈیننس 2020 کے تحت نافذ جزوی لاک ڈاؤن آئین کی وفاقی قوانین کی فہرست (ایف ایل ایل) کی خلاف ورزی نہیں بلکہ اس کا مقصد عوام کو تحفظ فراہم کرنا اور وبا کو روکنا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پنجاب حکومت نے عدالت میں جمع کروائی گئی ایک رپورٹ میں کہا کہ درحقیقت یہ وفاقی حکومت تھی جس نے صوبوں کو ایسی قانون سازی کرنے کی ترغیب دی جس کا صوبائی قانون سازی کے دائرے میں نہ آنے والی چیزوں اور علاقوں پر اثر انداز ہوسکتا ہے، ساتھ ہی یہ واضح کیا گیا کہ قانون کا بنیادی مقصد کورونا کو روکنا اور آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت صحت کے حق کا تحفظ کرنا تھا۔

پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شان گل نے وفاقی قوانین کی فہرست کے تحت وفاقی حکومت کے ٹیکس لگانے کی سرگرمیوں پر منفی اثر ڈالنے والی کاروباری سرگرمیاں بند کرنے کی قانون سازی کرنے پر صوبوں کی اہلیت کے بارے میں سپریم کورٹ کے سوال کے جواب میں یہ رپورٹ تیار کی۔

واضح رہے کہ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ پیر (18 مئی) سے مذکورہ کیس کی دوبارہ سماعت کرے گا۔

مزید پڑھیں: پنجاب میں لاک ڈاؤن میں 31 مئی تک توسیع، ہفتے میں 4 دن کاروبار کھولنے کی اجازت

اس بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس مشیر عالم، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس قاضی محمد امین احمد شامل ہیں۔

یہاں یہ مدنظر رہے کہ جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس سجاد علی شاہ کی غیرموجودگی کی وجہ سے جسٹس مشیر عالم اور جسٹس سردار مسعود کو بینچ میں شامل کیا گیا۔

اس کیس میں حکومت پنجاب کے علاوہ خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان حکومتوں کے ساتھ ساتھ وفاقی وزارت صحت نے بھی اسی طرح کی رپورٹس جمع کرائیں۔

جزوی لاک ڈاؤن کے نفاذ کا جواز پیش کرتے ہوئے حکومت پنجاب نے موقف اپنایا کہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے اپنے ایک اجلاس میں عوام میں سماجی فاصلوں کو یقینی بنانے کے لیے کاروبار اور تجارت پر جزوی طور پر لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ وبا کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے اور یہ ایف ایل ایل کے فورتھ شیڈول کے پارٹ 1 کے اینٹری نمبر 19 کے تحت کیا گیا تھا جبکہ این سی او سی میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں اسٹیک ہولڈرز ہیں۔

رپورٹ میں وضاحت کی گئی کہ ‘ایسا نہیں ہے کہ صوبہ اپنے طور پر کام کررہا ہے بلکہ وفاق اور صوبوں کے درمیان ایک بامقصد اور مشاورتی عمل کے نتیجے میں جزوی طور پر لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے لیے صوبائی آرڈیننس 2020 نافذ کیا گیا تھا‘۔

اس کے علاوہ وبائی بیماریوں کا ایکٹ 1897- وبائی بیماریوں یا آفات سے متعلق ایک وفاقی قانون- خود صوبوں کو وبائی امراض کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے عارضی ضوابط لاگو کرنے کا اختیار دیتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پنجاب میں تجارت اور کاروبار کے حوالے سے جزوی طور پر لاک ڈاؤن کا اعلان نہ صرف قانون سازی کی اہلیت کے تناظر میں جائز تھا بلکہ اسے موجودہ وفاقی قانون کی حمایت بھی حاصل تھی۔

اس طرح اس کارروائی کو وفاق اور صوبوں کی متفقہ حمایت حاصل ہے کیوں کہ این سی او سی نے اس طرح کے عمل کی منظوری دی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ صوبوں نے لاک ڈاؤن لگا کر قانون سازی کی اہلیت سے تجاوز نہیں کیا بلکہ انہوں نے آئین کے مینڈیٹ کا احترام کیا۔

یہ بھی بتایا گیا کہ لوگوں کی بین الصوبائی نقل و حرکت پر مکمل پابندی کے علاوہ رکشہ اور چنگچی کے ذریعہ سفر کی اجازت دینے کی پابندی کو کم کیا گیا تھا تاہم پبلک ٹرانسپورٹ کی دیگر بڑی گاڑیوں کے لیے حکومت کے ساتھ ٹرانسپورٹ سیکٹر کے نمائندوں کا اجلاس ترتیب دیا گیا تھا۔

صوبائی قانون سازی کرنے سے پہلے صدر سے رضامندی حاصل کرنے کے تقاضے کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 116 کے تحت گورنر کی منظوری کے بعد آئین کے آرٹیکل 151 (4) کے تحت صدر سے منظوری حاصل نہ کرنے کی صوبائی حکومت کو اجازت ہے۔

زکوٰۃ فنڈ میں بے ضابطگیوں کے الزامات کے بارے میں حکومت پنجاب نے وضاحت کی کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا بنیادی اعتراض قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی، معمولی غلطیاں اور ریکارڈ کی عدم تیاری کے بارے میں تھا۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ آڈیٹر جنرل نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہدھوکا دہی، غبن، چوری اور عوامی وسائل کے غلط استعمال کا کوئی کیس نہیں ہے۔

خیال رہے کہ 2 مئی کو آڈیٹر جنرل پاکستان (اے جی پی) نے انکشاف کیا تھا کہ سال 20-2019 میں محکمہ زکوٰۃ اور پاکستان بیت المال کے لیے مجموعی طور پر 5 ارب 96 کروڑ روپے کے فنڈز کا آڈٹ ہونے پر 3 ارب 67 کروڑ روپے کی بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔

اے جی پی نے وضاحت کی تھی کہ زکوٰۃ فنڈ میں 7 ارب 38 کروڑ روپے کے مجموعی بجٹ کا 13 فیصد (96 کروڑ روپے) کا سیمپل آڈٹ کیا گیا تھا جس میں سے 57 کروڑ 40 لاکھ روپے کی بے قاعدگیوں کا پتہ چلا۔

اسی طرح پاکستان بیت المال کا سالانہ بجٹ 5 ارب روپے تھا جس میں سال 20-2019 کے آڈٹ کے دوران 3 ارب 10 کروڑ روپے کی بے ضابطگیاں پائی گئیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں