سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے خاتمے کیلئے اوپن بیلٹ کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 21 مئ 2020
ماضی میں سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگتے رہے ہیں— فائل فوٹو: اے پی پی
ماضی میں سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگتے رہے ہیں— فائل فوٹو: اے پی پی

تحریک انصاف کی حکومت نے سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے خاتمے کے لیے وزیر اعظم کے انتخاب کی طرز پر اوپن بیلٹ کے ذریعے سینیٹ چیئرمین کے انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود اور وفاقی وزیر برائے نارکوٹکس کنٹرول اعظم سواتی نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ آئین میں 39 ترامیم کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات میں کب، کیا اور کیسے ہوتا ہے؟ مکمل طریقہ

اعظم سواتی نے کہا کہ اصلاحات کا ایجنڈا اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک دونوں ایوانوں میں ہماری اکثریت نہ ہو، اس کی وجہ سے ہم جب آرڈیننس کو بل کی صورت میں لے جاتے ہیں تو وہ سینیٹ میں رک جاتے ہیں حتیٰ کہ پبلک گُڈ کے بل بھی آٹھ، آٹھ مہینے سے کمیٹی میں پڑے ہوئے ہیں۔

— فوٹو: پی آئی ڈی
— فوٹو: پی آئی ڈی

انہوں نے کہا کہ سینیٹ کا الیکشن آرہا ہے اور ملک ک قائد عمران خان شفاف اور غیر جانبدار انتخابات چاہتے ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ سینیٹ کا الیکشن اتنا صاف و شفاف ہو کہ ہارس ٹریڈنگ پاکستان کے سینیٹ کے الیکشن سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم آئین میں تجویز کر رہے ہیں جہاں 59(2) میں متناسب نمائندگی ہے اور یہ ایک منتقل ہونے والا ووٹ ہے، اس کے علاوہ دوسری سیکشن 226 کی ہے کہ جس طریقے سے ہم یہ تجویز کر رہے ہیں اور بل آئینی ترمیم کی شکل میں پارلیمنٹ کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔

اعظم سواتی نے مزید کہا کہ ہم تجویز دے رہے ہیں کہ جس طرح سے وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کا انتخاب ہوتا ہے بالکل اسی طرح سینیٹ چیئرمین کا انتخاب بھی کیا جائے اور ہارس ٹریڈنگ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائے۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات: ’ہارس ٹریڈنگ میں پی ٹی آئی کی بیشتر خواتین ارکان ملوث‘

اعظم سواتی نے بتایا کہ ہم بائیو میٹرک کے ذریعے ووٹنگ کا نظام لا رہے ہیں تاکہ کسی کو شک نہ رہے جس کی ایک مثال احساس ہروگرام ہے جس کے انتہائی شاندار نتائج سامنے آرہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے الیکشن کمیشن سے ملاقات کی اور انہوں نے ہمیں بائیو میٹرک نظام کی صورت میں 88 فیصد کی گارنٹی دی ہے اور دو تین ماہ میں گلگت بلتستان انتخابات بھی بائیو میٹرک طرز پر منعقد کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بیرون ملک مقیم پاکستانی ہیں اور ہم انہیں بھی انتخابی عمل کا حصہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ ہم نے آئین میں 39 ترامیم تجویز کی ہیں جس میں سب سے اہم چیز سینیٹ کے الیکشن میں شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات:عمران خان’ہارس ٹریڈنگ‘میں ملوث پارٹی ارکان کے نام سامنے لے آئے

ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان میں جتنے بھی سینیٹ کے الیکشن ہوئے ہیں ان میں الزام لگتا رہا ہے کہ پیسے کا استعمال کیا گیا اور پچھلی مرتبہ بھی ہوا کہ ایک پارٹی جس کی خیبر پختونخوا میں چند ہی سیٹیں تھیں وہ اپنے دو سینیٹر بنا گئے، اس کا مطلب ہے کہ لمبی ہارس ٹریڈنگ ہوئی وہاں پر'۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کے خاتمے کے لیے اوپن بیلٹ کر رہے ہیں جس کی بدولت سب کو پتہ ہو گا کہ کس نے کس کو ووٹ دیا ہے اور سنیٹ انتخابات میں شو آف ہینڈ ہوگا۔

وزیر تعلیم نے دیگر مجوزہ تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر ریٹرننگ افسر ہمیں کہتا ہے کہ پولنگ اسٹیشن یہاں بنے گا تو میں امیدوار ہونے کی حیثیت سے اسے چیلنج کر سکتا ہوں، اگر کوئی بھی امیدوار یہ سمجھتا ہے کہ پولنگ اسٹاف جانبدار ہے تو وہ اسے بھی چیلنج کر سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان سب کا مقصد الیکشن سے قبل جو خرابیاں ہوتی تھیں یا تاریخی طور پر جو مسائل سامنے آئے ہیں انہیں ٹھیک کرنا ہے اور کچھ کا تعلق الیکشن والے دن سے ہے جس میں ہمیں اکثر مسائل دیکھنے کو ملے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات

انہوں نے کہا کہ امیدواروں کو ساری فہرستیں نہیں ملی تھیں جس کی وجہ سے اب کوشش کی گئی ہے کہ امیدوار کو ساری فہرستیں انتخابات سے 20 دن قبل ملیں جسے وہ اپنے کمپیوٹر میں ڈاؤن لوڈ بھی کر سکتے ہیں جبکہ کچھ چیزیں الیکشن کے بعد معاملات کے حوالے سے ہیں۔

شفقت محمود نے دیگر ترامیم کے حوالے سے بتایا کہ ہم نے تجویز دی ہے کہ خواتین کی مخصوص نشستیوں پر پارٹی کی قیادت اپنی فہرست انتخابات سے پہلے دینے کے بجائے انتخابات کے بعد دے گی، اس وقت یہ ہوتا ہے کہ الیکشن سے پہلے جو خواتین اپلائی کرتی ہیں جس کے بعد کوئی بھی جماعت فہرست دیتی ہے ہماری فہرست میں ان خواتین کو ترتیب وار ترجیح دی گئی ہے اور ان تمام چیزوں کا مقصد الیکشن کو شفاف بنانا ہے۔

اس موقع پر اعظم سواتی نے کہا کہ 2017 کا ایکٹ بہت زبردست تھا لیکن اس میں لکھا ہوا ہے کہ الیکشن پلان انتخابات سے چار ماہ قبل پروپوز ہوگا حالانکہ اسے چار ماہ قبل حتمی شکل دی جانی چاہیے اور ہم نے اس میں یہی تبدیلی کی ہے جبکہ حلقوں کی حد بندی چار ماہ قبل ختم ہو جانی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ خواتین اور اقلیتوں کی فہرست انتخابات سے پہلے دی جاتی تھی اور اس میں ایک بڑا خلا یہ تھا کہ اس فہرست میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی تھی۔

مزید پڑھیں: ’ہارس ٹریڈنگ کی موجد پیپلز پارٹی سے سیاسی اتحاد کی گنجائش نہیں

اعظم سواتی نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا میں سورن سنگھ کو جس نے قتل کیا تھا وہ ہماری ہی جماعت سے تعلق رکھتا تھا اور اقلیتوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر تھا اور اس نے ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے ہی قتل کیا تھا لیکن اس خامی کی وجہ سے ہم کچھ کرنے سے قاصر تھے اور وہ دو تین سال اسمبلی کا رکن رہا لیکن اب کوئی بھی جماعت کوئی جگہ خالی ہونے کی صورت میں کسی بھی وقت کوئی بھی دوسرا نام تجویز کر سکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک تحصیل میں انتخابات کے لیے جو عملہ آئے گا اس کا تعلق مذکورہ تحصیل کے بجائے کسی اور تحصیل سے ہو گا تاکہ غیر جانبدار اور شفاف انتخابات ہو سکیں۔

اعظم سواتی نے کہا کہ اگر پریذائیڈنگ افسر غیرقانونی طور پر کوئی ایسا کام کرے گا جس کی قانون میں اجازت نہیں ہے مثلاً پولنگ ایجنٹ کو باہر نکالے گا تو اس کو 3 سال کی سزا ہو سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کیلئے پی ٹی آئی متحرک

انہوں نے بتایا تھا کہ پہلے یہ تھا کہ ٹریبونل میں کوئی بھی ریٹائرڈ افسر اس کا سربراہ ہو سکتا تھا لیکن ہم نے تبدیلی کی ہے جس کے تحت ہائی کورٹ کا حاضر سروس جج ہی اس عہدے پر فائز ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ 39 ترامیم کابینہ سے منظوری کے بعد اسمبلی میں پیش کریں گے اور پھر یہ کمیٹییوں کے پاس جائیں گی اور آئندہ الیکشن غیرجانبدار اور شفاف ہو گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں