نایاب ہاتھی کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جائے، اسلام آباد ہائی کورٹ

اپ ڈیٹ 22 مئ 2020
کاوون کو سری لنکا نے 1985 میں پاکستان کو تحفے میں دیا تھا — فوٹو:اے ایف پی
کاوون کو سری لنکا نے 1985 میں پاکستان کو تحفے میں دیا تھا — فوٹو:اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ مرغزار چڑیا گھر میں نایاب ہاتھی کاوون سمیت جانوروں کو جن حالات میں رکھا گیا ہے وہ درد اور تکالیف سے بھر پور اور قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اسلام آباد وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کی میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد (ایم سی آئی) کے خلاف دائر درخواست پر فیصلہ سنا دیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ 'نہ تو مناسب سہولیات فراہم کی گئی ہیں اور نہ ہی جانوروں کو زندہ رہنے کے لیے ان کے رویے، سماجی اور نفسیاتی ضروریات کو پورے کرتے حالات پیدا کیے گئے ہیں'۔

مزید پڑھیں:وزارت ماحولیاتی تبدیلی کو چڑیا گھر کا انتظام سنبھالنے کی ہدایت

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مرغزار چڑیا گھر کا واحد ہاتھی کاوون کے ساتھ ظالمانہ سلوک روا رکھا گیا جس کے نتیجے میں وہ گزشتہ تین دہائیوں سے ناقابل تصور تکالیف سے گزر رہا ہے۔

کاوون کی تکلیف کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ جن حالات میں اس کو رکھا گیا ہے اس سے حکام کو متعلقہ قانون کے مطابق نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔

خیال رہے کہ کاوون کو 1985 میں سری لنکا نے پاکستان کو تحفے میں دیا تھا اس وقت ان کی عمر ایک سال تھی اور 30 سے زائد برس تک انہیں تنگ جگہ میں زنجیروں سے باندھ کر رکھا ہوا ہے جہاں کے حالات انتہائی خراب ہیں۔

مرغزار چڑیا گھر میں کاوون کو ایسی حالت میں رکھا گیا ہے جہاں نایاب جانوروں کو درکار نفسیاتی، سماجی اور رویوں کی ضروریات ناپید ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ کاوون کی تکالیف، انہیں ملک کے اندر یا باہر کسی محفوظ مقام پر منتقلی سے دور ہوں گی۔

یہ بھی پڑھیں:لاک ڈاؤن میں چڑیا گھر کی سیر

عدالت نے افسوس کا اظہار کیا کہ کاوون کا کھانا تفریح کے لیے آنے والوں کو فروخت کیا جاتا تھا اور حاصل ہونے والے فنڈ کا بھی ریکارڈ نہیں رکھا گیا جبکہ کاوون کی صحت خراب ہوتی گئی۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ کاوون کی دی جانے والی خوراک بھی غیرمعیاری اور نامناسب تھی اور 22 جون 2012 کو ان کی ساتھی کی ہلاکت کے بعد انہیں تنہائی میں رکھا جارہا ہے۔

بورڈ آف وائلڈ لائف منیجمنٹ کے چیئرمین کو وائلڈ لائف آرڈیننس 1979 کے تحت انتظامات کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ کاوون کو 30 روز میں مناسب جگہ منتقل کرنے کے لیے سری لنکا کے ہائی کمشنر سے مشورہ کیا جائے۔

عدالت نے کہا ہے کہ یہ بورڈ متعلقہ ماہرین اور بین الاقوامی اداروں یا تنظمیوں کی مدد بھی حاصل کرسکتا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بورڈ، عدالت کے فیصلے کی تقل موصول ہونے کے بعد 60 روز میں دیگر جانوروں کو ان کے متعلقہ مقامات میں منتقل کرے گا۔

بورڈ آف وائلڈ لائف منیجمنٹ کے چیئرمین کی سربراہی میں بورڈ کو چڑیا گھر کا انتظام سنبھالنے کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کے چیف کمشنر اور ایم سی آئی جانوروں کو منتقل کرنے تک بورڈ سے تعاون کریں گے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ تمام جانوروں کی محفوظ مقامات میں منتقلی تک ان کی دیکھ بھال کے لیے وزارت موسمیاتی تبدیلی اور بورڈ کے اراکین مشترکہ طور پر ذمہ دار ہوں گے۔

مزید پڑھیں:ناقص انتظامات، چڑیا گھر کے جانور بیمار

بورڈ کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اسلام آباد میں وفاقی حدود میں قائم کسی بھی چڑیا گھر کا جائزہ لے کر جانوروں سے ہونے والے سلوک کی نشان دہی اور قانون کے مطابق اقدامات کرے گا۔

عدالت نے کہا ہے کہ کالا ریچھ بدستور بورڈ کے قبضے میں اس کی جگہ پر ہی رہے گا کیونکہ آئی سی ٹی نے غیر قانونی طور پر اپنے پاس رکھا ہوا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کے چیف کمشنر اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس وائلڈ لائف آرڈیننس کے نفاذ میں بورڈ کی معاونت کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں