چین کا مجوزہ قانون: تائیوان کا ہانگ کانگ کے لوگوں کو 'ضروری مدد' فراہم کرنے کا اعلان

اپ ڈیٹ 26 مئ 2020
تائیوان کی صدر نے فیس بک پر بیان جاری کیا—فائل فوٹو: اے ایف پی
تائیوان کی صدر نے فیس بک پر بیان جاری کیا—فائل فوٹو: اے ایف پی

تائیوان کی صدر تسائی انگ وین نے کہا ہے کہ تائیوان ہانگ کانگ کے لوگوں کو 'ضروری مدد' فراہم کرے گا۔

واضح رہے کہ تائیوان کی صدر کی جانب سے یہ بیان بیجنگ کی جانب سے ہانگ کانگ میں نئے قومی سلامتی کے قانون کے نفاذ کے منصوبے کے خلاف ہونے والے ہزاروں افراد کے احتجاج کے بعد سامنے آیا۔

برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق تائیوان ہانگ کانگ سے آنے والے ان جمہوریت کے حامی مظاہرین کی ایک چھوٹی لیکن بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے پناہ گاہ بن گیا ہے جو گزشتہ برس سے بیجنگ اور ہانگ کانگ حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے بعد سے وہاں ہیں۔

خیال رہے کہ اتوار کو ہانگ کانگ میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے بیجنگ کی جانب سے نئے قومی سلامتی قانون کے منصوبے کے خلاف ریلی نکالی تھی، جس پر ہانگ کانگ پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کی تھی اور واٹر کینن کا استعمال کیا تھا۔

مزید پڑھیں: امریکا کی چین کو ہانگ کانگ پر قانون سازی کے معاملے پر دھمکی

بعد ازاں رات گئے اپنے فیس بک پیج پر تائیوان کی صدر نے لکھا تھا کہ مجوزہ قانون سازی ہانگ کانگ کی آزادی اور عدالتی آزادی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔

انہوں نے لکھا کہ آزادی اور جمہوریت کے لیے ہانگ کانگ کے عوام کی امنگوں کے ساتھ گولیوں اور جبر سے نمٹنا کوئی راستہ نہیں۔

تسائی انگ وین نے لکھا کہ بدلتی صورتحال کے تناظر میں بین الاقوامی برادری ہانگ کانگ کے عوام کی مدد کے لیے متحرک طریقے سے آگے بڑھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تائیوان اس سے زیادہ متحرک طریقے سے متعلقہ طریقے سے آگے بڑھے گا اور ہانگ کانگ کے لوگوں کو ضروری مدد فراہم کرے گا۔

خیال رہے کہ تائیوان کے پناہ گزینوں سے متعلق کوئی ایسے قانون نہیں جو ہانگ کانگ کے مظاہرین پر لاگو ہو جو جزیرے پر پناہ لینا چاہتے ہیں، مزید یہ کہ اس کے قوانین ہانگ کانگ کے ان شہریوں کو مدد فراہم کرنے کا وعدہ کرتے ہیں جن کے تحفظ اور آزادی کو سیاسی وجوہات کی بنا پر خطرہ ہو۔

ادھر سرکاری اعداد و شمار کے ہانگ کانگ سے تائیوان آنے والے مہاجرین کی تعداد میں گزشتہ سال کے مقابلے میں سال 2020 کے پہلے 4 ماہ میں 150 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 2 ہزار 383 ہوگئی۔

دوسری جانب تائیوان کی مرکزی اپوزیشن جماعت جوہنی چیانگ کیومنٹانگ کا کہنا تھا کہ تسائی انگ وین کی حکومت نے انتخابی مہم کے دوران ہانگ کانگ کی مدد سے متعلق زبانی باتیں کیں لیکن جنوری میں ان کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد سے وہ خاطر خواہ مدد کرنے میں ناکام رہی۔

واضح رہے کہ چین نے اپنے سالانہ پارلیمانی اجلاس میں ہانگ کانگ کے لیے قومی سلامتی کے قانون کی تجویز پیش کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

رپورٹس کے مطابق چینی پارلیمنٹ کے سیشن کی تیاری کے اجلاس میں ایک ایجنڈا شامل کیا گیا ہے جس میں ’ہانگ کانگ (نیم خود مختار خطے) کے لیے قانونی نظام کو بہتر بنانے اور ان کے نفاذ کے طریقے کو قائم‘ کرنے سے متعلق بل پر نظرثانی کی جائے گی۔

چین کے امور خارجہ کے نائب وزیر کا کہنا تھا کہ نئی صورتحال اور تقاضوں کے تحت نئے اقدامات ضروری ہیں اور بعض فیصلے قومی سطح پر لینا بہت ہی ضروری ہوگئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: چین کا ہانگ کانگ کیلئے نئے سیکیورٹی قوانین لانے کا منصوبہ

غیر سرکاری تنظیم 'ہانگ کانگ واچ' کے ڈائریکٹر جانی پیٹرسن کا کہنا تھا کہ ہانگ کانگ کی قانون ساز کونسل کو غیر مؤثر بنانے کے لیے سیکیورٹی سے متعلق قانون سازی کا فیصلہ ’بے مثال اور انتہائی متنازع مداخلت ہے‘۔

خیال رہے کہ 1991 میں برطانیہ نے اس شہر کو چین کے حوالے کیا تھا اور چین یہاں 'ایک ملک، دو نظام' فریم ورک کے تحت حکمرانی کر رہا ہے اور ہانگ کانگ کو نیم خود مختاری حاصل ہے۔

گزشتہ سال اکتوبر میں ہانگ کانگ میں مجرمان کی حوالگی سے متعلق مجوزہ قانون کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج و مظاہرے کیے گئے تھے، جس نے جمہوری سوچ رکھنے والے ہانگ کانگ کے عوام اور بیجنگ کی حکمراں جماعت کمیونسٹ پارٹی کے درمیان شدید اختلافات کو واضح کردیا تھا۔

ہانگ کانگ میں اس احتجاج کا آغاز پرامن طور پر ہوا تھا تاہم حکومت کے سخت ردعمل کے بعد یہ احتجاج و مظاہرے پرتشدد ہوگئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں