پاکستان کی بابری مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر کے آغاز پر شدید مذمت

اپ ڈیٹ 28 مئ 2020
ترجمان وزارت خارجہ نے کہا کہ  آج کا بھارت ’ایک انتہا پسندانہ نظریہ سے دوچار ہے
— فائل فوٹو: اے پی پی
ترجمان وزارت خارجہ نے کہا کہ آج کا بھارت ’ایک انتہا پسندانہ نظریہ سے دوچار ہے — فائل فوٹو: اے پی پی

پاکستان نے بھارتی شہر ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر کے آغاز کی شدید مذمت کی ہے۔

دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کووڈ 19 سے پیدا ہونے والی سنگین صورتحال سے دوچار ہے اور آر ایس ایس کی حامی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ’ہندوتوا‘ کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مصروف ہے۔

مزید پڑھیں: بابری مسجد کی زمین پر رام مندر تعمیر کیا جائے گا، بھارتی سپریم کورٹ

انہوں نے کہا کہ ’26 مئی 2020 کو ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر کا آغاز اس سمت میں ایک اور قدم ہے اور حکومت پاکستان اور عوام اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں‘۔

عائشہ فاروقی نے کہا کہ ’بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے نے بھارت کے نام نہاد 'سیکولرازم' کے چہرے پر پردہ ڈال دیا اور یہ واضح کر دیا کہ بھارت میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں اور انہیں اپنی زندگیوں، عقائد اور عبادت گاہوں سے ڈرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’بابری مسجد، امتیازی سلوک پر مبنی شہریت ترمیمی قانون، شہریوں کے قومی رجسٹر کا آغاز اور فروری میں مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگ اس بات کی واضح مثال ہے کہ بھارت میں مسلمان پسماندگی کا شکار ہیں اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے‘۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ’گائے کو ذبح یا اسمگلنگ کے نام پر مسلمانوں کو قتل کرنا، 'گھر واپسی'، 'لو جہاد'، اور 'کورونا جہاد' جیسی مذموم منصوبے دائیں بازو کے 'ہندوتوا' ایجنڈے کا حصہ ہیں جس سے ایسا لگتا ہے کہ بھارت 'ہندو راشٹر' بنانے کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس-بی جے پی کے زیر اثر آج کا بھارت ’ایک انتہا پسندانہ نظریہ سے دوچار ہے جو اقلیتوں کی سلامتی، خطے اور بیرون ملک امن و سلامتی کے لیے بڑھتا ہوا خطرہ ہے۔

عائشہ فاروقی نے کہا کہ بھارت میں مذہبی تعصب کی بڑھتی لہر کو بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے دستاویزی شکل دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ الاقوامی میڈیا نے بھارت میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو بھرپور اجاگر کیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس 9 نومبر کو بھارتی سپریم کورٹ نے 1992 میں شہید کی گئی تاریخی بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی متنازع زمین پر رام مندر تعمیر کرنے اور مسلمانوں کو مسجد تعمیر کرنے کے لیے متبادل کے طور پر علیحدہ اراضی فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا تھا کہ ’ایودھیا میں متنازع زمین پر مندر قائم کیا جائے گا جبکہ مسلمانوں کو ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے نمایاں مقام پر 5 ایکڑ زمین فراہم کی جائے‘۔

بابری مسجد کیس پس منظر

یاد رہے کہ 6 دسمبر 1992 میں مشتعل ہندو گروہ نے ایودھیا کی بابری مسجد کو شہید کردیا تھا جس کے بعد بدترین فسادات نے جنم لیا اور 2 ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، ان فسادات کو تقسیم ہند کے بعد ہونے والے سب سے بڑے فسادت کہا گیا تھا۔

جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا اس کے بعد سے اس مقام کا کنٹرول وفاقی حکومت اور بعدازاں سپریم کورٹ نے سنبھال لیا تھا۔

بھارت کی ماتحت عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ 2.77 ایکڑ کی متنازع اراضی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تقسیم ہو گی۔

یہ بھی پڑھیں: بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کیلئے انتہا پسند ہندوؤں کو جمع ہونے کی کال

ایودھیا کے اس مقام پر کیا تعمیر ہونا چاہیے، اس حوالے مسلمان اور ہندو دونوں قوموں کے افراد نے 2010 میں بھارتی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ اپنی اپنی درخواستیں سپریم کورٹ میں جمع کروا رکھی تھیں جس نے اس معاملے پر اُسی سال 8 مارچ کو ثالثی کمیشن تشکیل دیا تھا۔

اس تنازع کے باعث بھارت کی مسلمان اقلیت اور ہندو اکثریت کے مابین کشیدگی میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا تھا۔

مسلم فریقین کا مؤقف

بابری مسجد کے حوالے سے مسلمانوں کا مؤقف ہے کہ یہ سال 1528 سے موجود مذکوہ مقام پر قائم ہے، مسجد کی موجودگی کا ثبوت یہ ہے کہ اس کے خلاف 1855، 1934 اور 1949 میں کیس کیے گئے تھے۔

برطانوی راج نے بابر کی جانب سے دی گئی امداد کو منظور کر لیا تھا جس کے بعد اس امداد کا سلسلہ نوابوں کی جانب سے جاری رہا۔

1885 کے مقدمے کی دستاویزات سے مسجد کی موجودگی کا ثبوت ملتا ہے، مسلمانوں کے پاس اس جگہ کی ملکیت تھی اور وہ 22، 23 دسمبر 1949 تک یہاں عید کی نماز پڑھتے رہے۔

مزید پڑھیں: بابری مسجد تنازع کے حل کیلئے ثالثی پینل کی مدت میں 3 ماہ کی توسیع

مسلمانوں کا اصرار ہے کہ مسجد کی موجودگی کے حوالے سے تاریخ دانوں کے متنازع دلائل انتہائی کمزور ہیں اور ان کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔

ان کے دلائل کے مطابق بھارتی محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) کی رپورٹ میں مسجد کے نیچے مندر کی بات 'محض ایک دعویٰ' ہے جس کے سائنسی حقائق موجود نہیں۔

ہندو فریقین کا مؤقف

ہندوؤں کا مؤقف ہے کہ یہ مندر صدیوں پہلے بنایا گیا جسے ممکنہ طور پر راجا وکراما دتیا نے بنایا ہوگا اور پھر 11ویں صدی میں اسے دوبارہ بنایا گیا، اس مندر کو 1526 میں بابر نے یا پھر 17ویں صدی میں ممکنہ طور پر اورنگزیب نے گرا دیا تھا۔

تاریخی دستاویزات جیسے سکاندو پرانا یا اس کے بعد میں آنے والے ایڈیشنز، سفرناموں اور دیگر کہانیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایودھیا میں بھگوان رام کا جنم ہوا تھا۔

عینی شاہدین کے ثبوتوں کے مطابق لوگوں کا صدیوں سے ماننا ہے کہ ایودھیا میں بھگوان رام کا جنم ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بابری مسجد: بھارتی سپریم کورٹ نے تنازع کے حل کیلئے ثالثی ٹیم بنادی

اے ایس آئی کی رپورٹ سے مندر کی موجودگی اور اسے ڈھائے جانے کا ثبوت ملتا ہے۔

رواں برس بھارت کی سپریم کورٹ نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان بابری مسجد اور رام مندر کی زمین کا تنازع حل کرنے کے لیے ثالثی ٹیم تشکیل دی تھی۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ 2010 میں بھارتی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

بھارت کی ماتحت عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ 2.77 ایکڑ کی متنازع اراضی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تقسیم ہو گی۔

دسمبر 1992 میں ایودھیا - بابری مسجد کا تنازع اس وقت پرتشدد صورت اختیار کرگیا تھا جب راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)، وشوا ہندو پریشد اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے حمایت یافتہ مشتعل ہجوم نے بابری مسجد کو شہید کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا

گزشتہ 3 دہائیوں میں کشمیر میں بھارت کی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے ہزاروں کشمیری جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ ایودھیا میں 500 سال قدیم مسجد کو شہید کرنے کی وجہ سے ہونے والے فسادات میں 2 ہزار افراد قتل کردیے گئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

انتہا پسند ہندوؤں کے مطابق وہ اس مقام پر ہندو دیوتا 'رام' کا نیا مندر تعمیر کرنا چاہتے ہیں، جو ان کی جائے پیدائش ہے۔

ان کا مؤقف ہے کہ 16ویں صدی کی بابری مسجد، مسلم بادشاہوں نے ہندو دیوتا کا مندر گرانے کے بعد قائم کی تھی۔

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے 2014 اور 2019 میں انتخابات سے قبل اس مقام پر مندر تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا، جس کی وجہ سے وہ انتہا پسند ہندوؤں کے بڑے پیمانے پر ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں