بھارتی حکومت کی پالیسیز خطے کے امن کیلئے خطرہ بن رہی ہیں، عمران خان

اپ ڈیٹ 02 جون 2020
عمران خان نے اطالوی ہم منصب گوئیسپ کونٹے سے ٹیلی فون کال پر گفتگو کی—فائل فوٹو: فیسبک
عمران خان نے اطالوی ہم منصب گوئیسپ کونٹے سے ٹیلی فون کال پر گفتگو کی—فائل فوٹو: فیسبک

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر خطے کی سالمیت اور سیکیورٹی کے حوالے سے اپنے خدشات کو دہرایا ہے جبکہ بھارت میں موجود پاکستانی ہائی کمیشن کے 2 اہلکاروں کو جاسوسی کا الزام لگا کر وطن واپس بھیج دیا گیا جس سے دونوں جوہری ریاستوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہورہا ہے۔

دفتر وزیراعظم سے جاری بیان کے مطابق عمران خان نے اطالوی ہم منصب گوئیسپ کونٹے سے ٹیلی فون کال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت کی پالسیز سنگین طور پر جنوبی ایشیا کے امن اور استحکام کے لیے خطرہ بن رہی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نے مقبوضہ کشمیر میں ‘دہرے لاک ڈاؤن‘ کے تسلسل، قابض فوج کی جانب سے فوجی کریک ڈاؤن میں شدت اور ڈومیسائل قانون میں تبدیلی پر سخت تحفظات کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت توسیع پسند پالیسیوں کے ذریعے پڑوسی ممالک کیلئے خطرہ بن رہا ہے، وزیراعظم

ان کا کہنا تھا کہ بھارت اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور چوتھے جنیوا کنویشن سمیت بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ وادی میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی کررہا ہے۔

وزیر اعظم نے اطالوی ہم منصب کو ترقی پذیر ممالک کے لیے ”قرضوں میں ریلیف سے متعلق عالمی اقدام“ کے بارے میں بھی آگاہ کیا اور کہا کہ معیشتوں کو مستحکم کرنے کیلئے جامع پلان آف ایکشن وضع کرنے کی ضرورت ہے۔

خیال رہے کہ اتوار کو بھارت نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے دو سفارتی اہلکاروں پر ’جاسوسی میں ملوث‘ ہونے کا الزام لگاتے ہوئے 24 گھنٹے کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔

ان اہلکاروں میں 42 سالہ عابد حسین جو پاکستانی مشن میں اسسٹنٹ ہیں وہ اور محمد طاہر خان نامی کلرک شامل تھے جن کی عمر 44 برس ہے۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کیلئے بھارت کے جعلی آپریشن کے امکانات واضح ہیں، وزیراعظم

بھارتی وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ انہیں ’بھارتی قانون نافذ کرنے والے حکام نے جاسوسی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر پکڑا‘۔

بھارتی میڈیا کے مطابق ان اہلکاروں پر ایک مقامی شخص سے بھارتی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے متعلق دستاویزات لینے کا الزام ہے۔

نئی دہلی کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ حکومت نے دونوں پاکستانی سفارتی عملے کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے جو ’سفارتی آداب کے خلاف کارروائیوں‘ میں ملوث تھے۔

علاوہ ازیں بھارتی پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی ہائی کمیشن سے بھارت کی قومی سلامتی کے خلاف ان عہدیداروں کی سرگرمیوں کے سلسلے میں سخت احتجاج بھی درج کرایا گیا‘۔

بھارتی حکومت کے اس اقدام پر دفتر خارجہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اہلکاروں کو ناپسندیدہ قرار دینا اور انہیں 24 گھنٹے میں بھارت چھوڑنے کا حکم قابل مذمت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں پاکستانی سفارتکاروں کو ’ناپسندیدہ‘ قرار دینے پر پاکستان کا اظہار مذمت

انہوں نے کہا کہ بھارت کا عمل منفی اور پہلے سے طے شدہ ’میڈیا مہم ‘ کا حصہ ہے اور یہ پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا تسلسل ہے۔

دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ بھارتی حکام نے پاکستانی ہائی کمیشن کے 2 اراکین کو اٹھایا اور ان پر بے بنیاد الزامات لگائے۔

ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان ہائی کمیشن کی مداخلت پر انہیں رہا کیا گیا۔

دفتر خارجہ نے کہا کہ تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد پاکستانی سفارتی عملے کو الزام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا جو ویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں