فیصل آباد میں 100 سے زائد ڈاکٹر کورونا وائرس کا شکار

اپ ڈیٹ 03 جون 2020
ڈاکٹروں نے انتظامیہ کو ذمہ دار قرار دے دیا—فائل/فوٹو:اے پی پی
ڈاکٹروں نے انتظامیہ کو ذمہ دار قرار دے دیا—فائل/فوٹو:اے پی پی

فیصل آباد کے تین سرکاری ہسپتالوں الائیڈ، ڈی ایچ کیو اور جنرل ہسپتال غلام محمد آباد میں 100 سے زائد ڈاکٹر کووڈ-19 کا شکار ہوگئے ہیں۔

ڈاکٹروں نے ان معاملات کا ذمہ دار مبینہ طور پر ضعلی انتظامیہ کو قرار دے دیا اور کہا کہ الائیڈ اور ڈی ایچ کیو میں حفاظتی اقدامات کے بغیر نئے وارڈز بنائے گئے جبکہ جنرل ہسپتال غلام محمد آباد میں بستر دستیاب تھے۔

جنرل ہسپتال میں کووڈ-19 کے علاج کے لیے 250 بستر دیے گئے تھے جن میں سے صرف 60 زیر استعمال ہیں۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن فیصل آباد کے سیکریٹری ڈاکٹر محمد عرفان کا کہنا تھا کہ اکثر ڈاکٹروں کو حفاظتی لباس فراہم نہیں کیا گیا تھا اور وہ وائرس سے متاثر ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں:پنجاب حکومت کا اعداد و شمار چھپانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، یاسمین راشد

ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مریضوں کا علاج کرتے ہوئے خود کو کورونا وائرس سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ناکام ہوجاتے ہیں اور اس پھیلاؤ کو پی پی ایز کی فراہمی کے بغیر نہیں روک پائیں گے۔

ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ جنرل ہسپتال میں علاج کی اچھی حکمت عملی ہے، جس سے انتظامیہ کو وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے لیکن دیگر 3 ہسپتالوں میں مریضوں کا آنے کی اجازت سے صورت حال خراب ہوئی۔

ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن فیصل آباد کے سیکریٹری ڈاکٹر عدنان شاکر نے کہا کہ طبی ماہرین کے ایک وفد کی فیصل آباد میڈیکل یونیورسٹی (ایف ایم یو) کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر چوہدری سے ہوئی تھی اور مسائل کو اجاگر کیا تھا کہ جب جنرل ہسپتال میں بستروں کی گنجائش موجود ہے تو الائیڈ اور ڈی ایچ کیو ہسپتال میں وارڈز کیوں بنائے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ناقص حکمت عوام کے لیے خطرناک ثابت ہوئی ہے اور تینوں ہسپتالوں میں 110 ڈاکٹر کورونا وائرس میں مبتلا ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان سے ایک اور سوال پر بھی بات ہوئی تھی کہ دیگر اضلاع کے مقابلے میں فیصل آباد کے ڈاکٹر وائرس سے زیادہ شکار کیوں ہورہے ہیں۔

مزید پڑھیں:لاہور کے تمام علاقے غیرمحفوظ، شہر میں 6 لاکھ 70 ہزار سے زائد کورونا کیسز کا اندیشہ

ایف ایم یو کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ حکام ڈاکٹروں اورپیرامیڈیکس کی صحت کے حوالے سے پریشان ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مریضوں کے علاج کے لیے دو ہسپتالوں میں وارڈز بنائے گئے تھے لیکن مریضوں کے علاج کے لیے مزید جگہ درکار تھی۔

ایف ایم یو کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر چوہدری کا کہنا تھا کہ درحقیقت جنرل ہسپتال سے کسی مریض کو منتقل نہیں کیا گیا جو تحصیل سطح کی سہولت ہے جہاں جن مریضوں کی حالت خطرے میں ہو ان کے علاج کے لیے مناسب انتظامات نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈی ایچ کیو اور الائیڈ ہسپتال میں مریضوں کو منتقل کرنے سے پہلے وہاں اس طرح کے حالات تھے۔

انہوں نے کہا کہ 16 مارچ کو فیصلہ کیا گیا تھا کہ کورونا وائرس کے مریضوں کا انتظام جنرل ہسپتال میں کیا جائے گا تاکہ وائرس کو روکا جاسکتے اور الائیڈ ہسپتال سے 6 وینٹی لیٹرز کو بھی منتقل کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:کورونا وائرس: ملک میں مزید 3 ڈاکٹرز کا انتقال، طبی عملے کے متاثرین کی تعداد 1904 ہوگئی

ڈاکٹر ظفر چوہدری کا کہنا تھا کہ گزشتہ تین ہفتوں میں ایسے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جن کی حالت خطرے میں ہے اور ایک خطرہ موجود تھا کہ مریضوں کی جان جاسکتی ہے اور انہیں ایچ ڈی یو بستروں کی دستیابی سے بچایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ الائیڈ اور ڈی ایچ کیو ہسپتال میں خطرے میں موجود مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے ان کے انتظام کا فیصلہ وائس چانسلر نے نہیں کیا تھا بلکہ یہ کووڈ-19 انتظامیہ کی تجویز تھی جس میں ایف ایم یو کی میڈیکل یونٹ بھی شامل تھے۔

وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ کسی ایک ہسپتال کو مریضوں کی اتنی بڑی تعداد کی ضروریات پوری کرنا ممکن نہیں تھا۔


یہ خبر 3 جون 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں