چین اور بھارت سرحدی تنازع کے پُرامن حل کے متلاشی

اپ ڈیٹ 08 جون 2020
چینی صدر اور بھارتی وزیراعظم—فائل فوٹو:رائٹرز
چینی صدر اور بھارتی وزیراعظم—فائل فوٹو:رائٹرز

نئی دہلی: بھارت کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانی اور چینی فوجی کمانڈروں نے وزیر اعظم نریندر مودی اور صدر شی جن پنگ کے درمیان حالیہ برسوں میں طے پانے والے دوطرفہ معاہدوں کے تحت مشرقی لداخ میں موجودہ سرحدی مسئلے کو پُرامن طور پر حل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بھارتی وزارت امور خارجہ نے یاد دلایا کہ حالیہ ہفتوں میں، بھارت اور چین نے سرحد کے اطراف کے علاقوں کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے قائم سفارتی اور فوجی چینلز کو اپنایا تھا۔

بیان میں کہا گیا کہ ’لیہہ میں مقیم (بھارتی) کور کمانڈر اور چینی کمانڈر کے درمیان 6 جون کو چشول مولڈو خطے میں ایک اجلاس ہوا‘۔

انہوں نے بتایا کہ یہ اجلاس خوشگوار اور مثبت ماحول میں ہوا تھا، دونوں فریقین نے مختلف دو طرفہ معاہدوں کے مطابق سرحدی علاقوں کے تنازع کو پُرامن طور پر حل کرنے پر اتفاق کیا اور رہنماؤں کے درمیان معاہدے کو مدنظر رکھتے ہوئے دوطرفہ تعلقات کی مجموعی ترقی کے لیے بھارت-چین سرحدی خطوں میں امن کی ضرورت پر اتفاق کیا تھا۔

مزید پڑھیں: بھارت، چین کے درمیان سرحدی علاقے میں جھڑپ، دونوں ممالک کے متعدد فوجی زخمی

ادھر بھارتی اخبار دی ہندو نے نامعلوم ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ بھارتی فریق نے چین کو اپریل کی پوزیشنز پر واپس جانے کے لیے دباؤ ڈالا ہے۔

وزارت کی جانب سے کہا گیا کہ ’دونوں فریقین نے یہ بھی نوٹ کیا کہ اس سال دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 70 ویں سالگرہ ہے ساتھ اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ جلد قرار داد، تعلقات کو مزید فروغ دینے میں معاون ثابت ہوگی‘۔

بیان میں کہا گیا کہ ’اسی طرح دونوں فریقین صورتحال کو حل کرنے اور سرحدی علاقوں میں امن و سکون کو یقینی بنانے کے لیے فوجی اور سفارتی مصروفیات جاری رکھیں گے‘۔

بھارتی وفد کی قیادت لیہہ بیس 14 کور کے جنرل آفیسر کمانڈنگ لیفٹیننٹ جنرل ہریندر سنگھ کر رہے تھے جب کہ چینی وفد کی سربراہی تبت فوجی ضلع کے کمانڈر میجر جرنل لیو لن کر رہے تھے۔

واضح رہے کہ چین اور بھارت کی فوج لداخ میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں اور کشیدگی میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ کے آخر میں بھارت نے چین کے ساتھ سرحدی تنازع پر امریکی صدر کی ثالثی کی پیشکش یہ کہہ کر مسترد کردی تھی کہ وہ مذکورہ معاملے پر بیجنگ کے ساتھ ’مسئلے کے حل‘ کے لیے کوشاں ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش اس وقت سامنے آئی تھی جب بھارتی دفاعی ذرائع نے بتایا تھا کہ سیکڑوں چینی فوجی 3 ہزار 500 کلو میٹر لمبی سرحد کے ساتھ متنازع زون میں داخل ہوگئے ہیں۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کی افواج لداخ کی وادی گالوان میں خیمہ زن ہوئے تھے اور ایک دوسرے پر متنازع سرحد پار کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

نئی دہلی میں بھارتی حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ چین کی جانب سے تقریباً 80 سے 100 ٹینٹ نصب کردیے گئے ہیں جبکہ بھارت کی جانب سے بھی 60 خیمے لگائے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نئی بھارتی سڑکیں چین کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کی وجہ بنیں، مبصرین

دوسری جانب چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ 'چین اپنی علاقائی خود مختاری کے تحفظ سمیت اپنے اور بھارت کے سرحدی علاقوں میں امن اور استحکام قائم کرنے کے لیے پرعزم ہے'۔

تاہم بھارتی فوج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ چینی فوجیوں نے لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) کے ساتھ بھارت کے معمول کے گشت کو روک دیا۔

بعد ازاں بھارت کے ریٹائرڈ فوجی افسران اور سفارت کاروں کے بیانات سے واضح ہوا تھا کہ سرحد پر تنازع کی اصل وجہ بھارت کی جانب سے سڑکوں اور رن ویز کی تعمیر ہے۔

خیال رہے کہ بھارت اور چین کی سرحدیں ہمالیہ سے ملتی ہیں اور دونوں ممالک میں طویل عرصے سے سرحدی تنازع جاری ہے، دونوں ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے رہتے ہیں۔

چین، بھارت کے شمال مشرقی علاقے میں 90 ہزار مربع کلومیٹر کا دعویٰ کرتا ہے جبکہ بھارت کا کہنا ہے کہ چین نے مغربی ہمالیہ میں اس کے 38 ہزار مربع کلومیٹر پر قبضہ کر رکھا ہے اور اس سرحدی تنازع پر دونوں ممالک کے متعلقہ حکام درجنوں ملاقاتیں کرچکے ہیں لیکن اس کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں