سنتھیا رچی کا پاکستان مخالف سرگرمیوں کی تحقیقات کرنے کا دعویٰ

اپ ڈیٹ 09 جون 2020
جس طرح یہ تنازع آگے بڑھ رہا ہے یہ بات واضح ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں مزید پیچیدہ ہوجائے گا—تصویر: سنتھیا رچی فیس بک
جس طرح یہ تنازع آگے بڑھ رہا ہے یہ بات واضح ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں مزید پیچیدہ ہوجائے گا—تصویر: سنتھیا رچی فیس بک

اسلام آباد: پاکستان میں مقیم امریکی بلاگر سنتھیا رچی کی جانب سے سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے خلاف لگائے گئے الزامات سے سوشل میڈیا پر شروع ہونے والا تنازع اس وقت مبہم ہوگیا جب ان کی جانب سے سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک کے خلاف ریپ کے الزامات لگائے گئے اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ ایک قوم پرست تنظیم کی ’تحقیقات‘ کررہی تھیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ادارے(ایف آئی اے) کو ارسال کردہ خط میں سنتھیا رچی نے لکھا کہ وہ گزشتہ چند برسوں سے ’’پاکستان کے قانون پر عمل کرنے والی رہائشی ہیں اور (فوج اور دیگر اداروں کے تعاون سے) پی ٹی ایم کی تحقیقات کررہی تھیں‘‘ جس کے نتیجے میں ’’پی ٹی ایم اور پیپلز پارٹی کی ریاست مخالف سرگرمیوں کے رابطے‘‘ سامنے آئے تھے۔

مذکورہ خط بظاہر سنتھیا رچی نے پیپلزپارٹی کی جانب سے ان کے خلاف ایف آئی اے میں بینظیر بھٹو کو بدنام کرنے کی شکایت پر وضاحت کے لیے لکھا۔

بینظیر بھٹو کے خلاف اپنے الزامات کا دفاع کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ الزامات ہتک عزت کے قانون کے زمرے میں نہیں آتے۔

امریکی بلاگر کی جانب سے فوج کے ساتھ کام کرنے کا دعویٰ نیا نہیں کیوں کہ ماضی میں بھی وہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطوں کا فخریہ ذکر کرتی رہی ہیں اور اپنے میزبان ملک میں مراعت یافتہ رسائی سے لطف اندوز ہونے کے حوالے سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر تصاویر بھی پوسٹ کر رکھی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بلاگر سنتھیا رچی کا پیپلز پارٹی کے رہنما رحمٰن ملک پر ریپ کا الزام

تاہم اس افشا ہونے والے خط سے ان کی سرگرمیاں، پاکستان میں رہائش کی قانونی حیثیت اور ان کے تعلقات کے حوالے سے سوالات کا سیلاب اُمڈ آیا ہے۔

جس طرح یہ تنازع آگے بڑھ رہا ہے یہ بات واضح ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں یہ مزید پیچیدہ ہوجائے گا۔

وزارت داخلہ کے ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ سنتھیا رچی پاکستان میں بزنس ویزے پر مقیم ہیں تاہم ترجمان وزارت داخلہ خاندان میں ہونے والی کسی موت کے سبب اس پر بات کرنے کے لیے دستیاب نہ ہوسکے۔

پاکستان کا پہلا دورہ

سنتھیا رچی نے لکھا کہ وہ پہلی مرتبہ اکتوبر 2009 میں پاکستان آئیں اور انہوں نے وزیر انسداد منشیات اعظم سواتی کے ایک رشتہ دار کی سفارش پر ہوسٹن میں موجود پاکستانی قونصل خانے سے ویزا حاصل کیا، اس وقت اعظم سواتی کا ہیوسٹن میں کاروبار خوب پھیلا ہوا تھا۔

اس ضمن میں ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’وہ ٹیکساس کی پورٹ آرتھر میں رہائش پذیر تھیں جہاں سے اعظم سواتی کے کئی کاروباری ادارے ایک گھنٹے کی مسافت پر قائم تھے، اعظم سواتی کے بیٹے شہر کی کونسل کے رکن جبکہ بیٹی اپنے بچوں کے ہمراہ اب بھی وہیں مقیم اور کاروبار سنبھال رہی ہیں۔

بعدازاں اعظم سواتی نے مبینہ طور پر پاکستان میں ان کے رابطے بڑھانے میں مدد کی، دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے پہلے دورے کے دوران انہوں نے نومبر 2009 میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنماؤں سے ملاقات بھی کی تھی۔

ملاقات کے بعد ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا تھا کہ ’ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے ملاقات کی، اگر آپ بین الاقوامی سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں تو میں آپ کو اس جماعت کے بارے میں پڑھنے کی تجویز دوں گی‘ تاہم یہ واضح نہیں کہ انہوں نے پہلی سیاسی ملاقات میں ایم کیو ایم ہی کو کیوں چنا تھا۔

اعظم سواتی کے خاندان کے ذرائع نے بتایا کہ سنتھیا نے ہیوسٹن میں پہلے اعظم سواتی کی نواسیوں سے رابطے قائم کیے پھر پاکستان میں سماجی مسائل پر کام کرنے میں دلچسپی ظاہر کی، جس پر ان کی نواسیوں نے اعظم سواتی سے ان کا رابطہ کروایا تاہم ذرائع کا کہنا تھا کہ اعظم سواتی نے بعد میں ان سے فاصلہ اختیار کرلیا تھا۔

سنتھیا رچی نے ہیوسٹن میں مقیم پاکستانی تارکین وطن کے ذریعے پاکستان میں اپنے رابطے قائم کیے، اوپن سورس مواد کے مطابق اس سلسلے میں امریکی ریاست ایلینائے میں موجود پاکستانی پس منظر رکھنے والے ڈاکٹروں کی تنظیم کا کردار اہم ہے۔

مزید پڑھیں: بلاگر سنتھیا رچی کے ٹوئٹ پر پیپلز پارٹی کا ایف آئی اے سے رجوع

سنتھیا کی پاکستان میں اکتوبر 2010 سے شروع ہونے والی ابتدائی 2 نوکریاں امریکا میں مقیم پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم ہیومینٹی ہوپ اور عمیر ثنا فاؤنڈیشن میں تھی۔

سنتیھیا مئی 2011 کے قریب امریکی اسپیشل فورس کے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے ٹھکانے پر کیے گئے آپریشن کے وقت ایک مرتبہ پھر منظر عام پر آئی تھیں جب انہوں نے میڈیا انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان میں مزید کچھ سال رہنے کا عندیہ دیا تھا جس کے بعد انہوں نے دو سالہ ورک ویزا بھی حاصل کرلیا تھا۔

اس وقت دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ انہیں وزارت صحت میں ڈاکٹروں کو بہتر بات چیت کی تربیت دینے کی نوکری مل گئی ہے تاہم واضح نہیں کہ ان کا کنٹریکٹ کتنے عرصے جاری رہا۔

بعد ازاں سنتھیا رچی نے پیپلز پارٹی کی حکومت میں مضبوط رابطے استوار کرلیے تھے، سینیٹر رحمٰن ملک پر لگایا گیا ریپ کا الزام بھی سال 2011 کا ہے جس کی رحمٰن ملک نے سختی سے تردید کی۔

یہ سال 2012 تھا جب سنتھیا نے اپنی سرگرمیاں انسانیت اور ترقی سے میڈیا کے پروجیکٹس کی جانب موڑ لیں اور ان کا پہلا اعلانیہ منصوبہ ’پاکستانی پاکستان کے لیے کیا کررہے ہیں‘ تھا جس میں امریکا اور پاکستان کے تعلقات کو مثبت طریقے سے پیش کیا گیا تھا۔

2015 میں انہوں نے کمشیر پر ایک دستاویزی فلم بنانے کا اعلان کیا تھا جس کے بارے میں انہوں نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ یہ فلم حکومت پاکستان کی جانب سے بنائی جارہی اور بظاہر یہ منصوبہ 2019 تک جاری رہا۔

سنتھیا رچی کو 2016 میں اس وقت سوشل میڈیا پر شہرت ملنی شروع ہوئی جب لوگوں نے ان کی پاکستان کی سڑکوں پر سائیکلنگ کرنے اور مقامی لوگوں کے ساتھ گھل مل جانے کی تصاویر شیئر کی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: سنتھیا رچی کیخلاف پاکستان پیپلزپارٹی کی درخواست پر ایف آئی اے کو نوٹس جاری

اس وقت تک ملک دہشت گردی کے مسئلے کا سامنا کررہا تھا اور اسے غیر ملکی میڈیا میں غیر ملکیوں کی رہائش کے لیے غیر محفوظ تصور کیا جاتا تھا، ان کی سرگرمیوں نے انہیں پاکستان دوست ہونے کا تصور قائم کرنے میں مدد دیا جن کے لفظوں کے مطابق وہ ایک ’سوشل میڈیا انفلوئینسر‘ تھیں۔

تاہم ناقدین کہتے ہیں کہ ان کی تمام تر سرگرمیوں کا محور مقامی ناظرین ہیں اور انہوں نے بیرونِ ملک پاکستان کے فروغ کے لیے معمولی کام کیا جبکہ ملک کی مثبت تصویر پیش کرنا اصل کام ہے جسے کرنے کی ضرورت ہے۔

رابطے، کام

ایف آئی اے کو لکھے خط میں انہوں نے اپنی سرگرمیوں کی تفصیلات درج کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’جب سے پاکستان میں مقیم ہیں مثبت پاکستان کے فروغ کے لیے سرگرم ہیں، اس سلسلے میں انہوں نے ایکسپریس ٹریبیون، دی نیوز انٹرنیشنل اور ساؤتھ ایشیا میگزین میں لاتعداد مضامین بھی لکھے، انہوں نے کہا کہ ’میں نے سی ٹی ڈی خیبر پختونخوا کی خواتین کمانڈو، ہائی وے اور موٹر ویز پولیس، فوج اور نیکٹا کے ساتھ کام کیا‘۔

اس ضمن میں پاکستان کی عوامی سفارتکاری کے لیے کام کرنے والے ایک پاکستانی کا کہنا تھا کہ انہوں نے کسی غیر ملکی اشاعتی ادارے یا ٹیلیویژن کا نام نہیں لیا جہاں انہوں نے پاکستان کی وکالت کی ہو ’مجھے حیرت ہے کہ وہ کسے متاثر کررہی ہیں‘۔

سنتھیا رچی نے ’ایمرجنگ فیسز: ایکسپلورنگ پاکستان ہڈن ٹریژر‘ یعنی ابھرتے ہوئے چہرے: پاکستان کے چھپے ہوئے خزانے کی تلاش کے عنوان سے ایک دستاویزی فلم پیش کی جسے نومبر 2017 میں واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں ’پاکستان کے رنگ‘ نامی تقریب کے دوران پیش کیا گیا تھا یہ بات سفارت خانے کی جانب سے اس وقت جاری کی گئی ایک پریس ریلیز میں کہی گئی تھی۔

پریس ریلیز کے مطابق تقریب کی میزبانی پاکستانی سفارتکار اعزاز چوہدری اور ان کی اہلیہ ناجیہ احمد نے کی تھی اور سنتھیا رچی اس کے مقررین میں سے ایک تھیں۔

مزید پڑھیں: ہراسانی کا الزام: یوسف رضا گیلانی کا سنتھیا رچی کیخلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنے کا اعلان

بعدازاں وہ حکومت کے مخالفین کے ساتھ سوشل میڈیا پر لڑتی نظر آئیں جس پر خاصی تنقید بھی ہوئی۔

تاہم پاکستان آنے سے قبل وہ کیا کرتی تھی یہ بات معروف نہیں ہے۔

تعلیمی پس منظر

سنتھیا رچی نے لوزیانا اسٹیٹ یونیورسٹی سے کرمنل جسٹس میں گریجویشن کی اور اسی یونیورسٹی سے 2005 میں نفسیات کے مضامین کے ساتھ ایم اے کیا۔

ساتھ ہی وہ پیپر ڈائن یونیورسٹی اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے بھی ڈگری حاصل کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن رپورٹس کے مطابق انہوں نے ان تعلیمی اداروں سے سرٹیفکیٹ ضرور حاصل کیے تھے البتہ باضابطہ ڈگری نہیں۔

انہوں نے 2006 سے 2009 کے درمیان تعلقات عامہ کی نوکریاں کیں اور کمپیوٹر اور فون بزنس کے لیے بھی کافی کام کیا ہیوسٹن میں ان کی آخری معلوم ملازمت جاروب کشی کی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی میں ایک سینئر عہدیدار کی تھی۔

2017 میں انہوں نے کلچر انک کی سی ای او کا عہدہ بھی سنبھالا لیکن 2 دو سال بعد ان کی کمپنی معطل قرار دی گی بعد ازاں انہوں نے 2017 میں ہی ’آ ڈفرنٹ لینس پروڈکشن‘ کے نام سے ایک اور کمپنی بھی قائم کی لیکن اسے بھی امریکی حکام نے 2019 میں کسی وقت معطل کردیا۔

پولیس کو نوٹسز کا اجرا

دوسری جانب ایک مقامی عدالت نے 8 مئی کو اسلام آباد پولیس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سنتھیا رچی کے خلاف بے نظیر بھٹو کی شہرت کو نقصان پہنچانے کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے اندراج کی درخواست پر جواب طلب کرلیا۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹر رحمٰن ملک کا بلاگر سنتھیا رچی کو قانونی نوٹس

علاوہ ازیں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی ایک عدالت پہلے ہی پی پی پی کے مقامی رہنما راجا شکیل عباسی کی جانب سے اسی طرح کی درخواست پر ایف آئی اے کے سائبر کرائم سرکل کو نوٹس جاری کرچکی ہے۔

ایڈیشنل اینڈ ڈسٹرک سیشن جج عابدہ سجاد نے وقاص عباسی کی دائر درخواست پر اسلام آباد کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 12 جون تک جواب طلب کرلیا۔

اپنی درخواست میں وقاص عباسی نے کہا تھا کہ ایف آئی نے پی پی پی کی شہید رہنما بے نظیر بھٹو کو بدنام کرنے پر بلاگر کے خلاف ان کی شکایت پر ایف آئی آر درج نہیں کی۔

دوسری جانب سنتھیا رچی نے ٹوئٹر پر کچھ تصاویر بھی پوسٹ کیں جس میں وہ سابق وزیرداخلہ رحمٰن ملک سے یادگاری شیلڈ حاصل کررہی ہیں، ایک اور ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں جھوٹ پکڑنے والے ڈٹیکٹر کتنے درست ہیں؟ کیا رحمٰن ملک ایک حاصل کرنے پر رضامند ہوں گے؟ میں تو یقیناً کروں گی‘۔

سنتھیارچی تنازع

خیال رہے کہ 5 جون کو اپنے فیس بک پیج پر جاری ایک لائیو ویڈیو میں سنتھیا رچی نے دعویٰ کیا تھا کہ '2011 میں سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے میرا ریپ کیا تھا، یہ بات درست ہے، میں دوبارہ کہوں گی کہ اس وقت کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے میرا ریپ کیا تھا'۔

سنتھیا رچی نے سابق وقافی وزیر مخدوم شہاب الدین اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر جسمانی طور ہراساں کرنے کا بھی الزام عائد کیا اور کہا کہ اس دوران یوسف رضا گیلانی ایوان صدر میں مقیم تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مجھے مارنے اور میرا ریپ کرنے کی لاتعداد دھمکیاں موصول ہوئی ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ جو کچھ بھی کہہ رہی ہیں اس کی حمایت میں شواہد موجود ہیں۔

دوسری جانب رحمٰن ملک، یوسف رضا گیلانی، ان کے بیٹے اور مخدوم شہاب الدین نے الزامات کو سختی سے مسترد کردیا تھا۔

بعد ازاں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے امریکی نژاد پاکستانی بلاگر سنتھیا رچی کے خلاف پاکستان اور امریکا میں ہتک عزت کا دعوی دائر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ سنتھیا رچی نے بے بنیاد الزامات لگا کر میری ساکھ مجروح کی۔

دوسری جانب سینیٹر رحمٰن ملک کے وکلا نے بذریعہ ٹی سی ایس امریکی خاتون سنتھیا رچی کو الزامات عائد کرنے پر 50 کروڑ روپے ہرجانے کا نوٹس بھیجوایا تھا۔

سابق وزیرداخلہ رحمٰن ملک کے ترجمان ریاض علی طوری کی جانب سے جاری بیان کے مطابق سینیٹر رحمٰن ملک نے اپنے قانونی نوٹس میں سنتھیا رچی کے الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر سختی سے تردید کی۔

تبصرے (0) بند ہیں