طیارہ حادثہ: انکوائری کمیشن میں مفاد کا ٹکراؤ سامنے آ رہا ہے، رضا ربانی

اپ ڈیٹ 10 جون 2020
انہوں نے کہا کہ سی اے اے نے انکوائری کمیشن کی رپورٹ کو پس پشت ڈال کر اپنا فیصلہ سنا دیا۔—فائل فوٹو: ڈان نیوز
انہوں نے کہا کہ سی اے اے نے انکوائری کمیشن کی رپورٹ کو پس پشت ڈال کر اپنا فیصلہ سنا دیا۔—فائل فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ کراچی میں طیارہ حادثہ سے متعلق انکوائری کمیشن میں مفادات کا ٹکراؤ سامنے آرہا ہے۔

سینیٹ کے اجلاس میں قومی ایئر لائن (پی آئی اے) طیارہ حادثہ پر توجہ دلاؤ نوٹس میں سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ کمیشن میں بیشتر افراد کا تعلق پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) سے ہے جن کا کمرشل پروازوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

مزید پڑھیں: 'میرا وعدہ ہے کہ طیارہ حادثے کی صاف و شفاف انکوائری ہوگی'

علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کی نمائندگی ہے جو ایئر ٹریفک کو کنٹرول کرتا ہے لیکن انکوائری کمیشن میں کوئی ایسا پائلٹ شامل نہیں کیا گیا جو کمرشل طیارہ اڑاتا ہو۔

واضح رہے کہ کراچی میں پی آئی اے کا طیارہ گرنے کے فوراً بعد واقعے کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت نے ایئر کموڈور محمد عثمان غنی کی سربراہی میں ٹیم تشکیل دے دی تھی۔

سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ سول ایوی ایشن نے پی آئی اے کو خط میں لکھ کر واضح کیا کہ پائلٹ کو ایئر ٹریفک سے ہدایت ملیں لیکن انہوں نے عملدرآمد نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ سی اے اے نے انکوائری کمیشن کی رپورٹ کو پس پشت ڈال کر اپنا فیصلہ سنا دیا۔

سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ ’انکوائری یہ کرنی چاہیے کہ پی آئی اے میں جب سے موجودہ چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) ایئرمارشل ارشد ملک آئے ہیں، پی آئی اے کے کیا حالات ہیں؟'

انہوں نے تنقید کی کہ پی آئی اے کے اندر وار کورس کی کیا ضرورت ہے اور موجودہ سی ای او کو سندھ ہائی کورٹ نے برطرف کیا جسے سپریم کورٹ نے بحال کردیا جبکہ انہوں نے پی آئی اے کے اندر مارشل لا نافذ کیا ہوا ہے۔

مزیدپڑھیں: طیارہ حادثہ: تحقیقات کیلئے ریکارڈرز سے اہم معلومات موصول ہوئیں، ایئربس

رہنما پیپلز پارٹی رضا ربانی نے مزید کہا کہ پی آئی اے میں اسپیشل سروس ایکٹ نافذ کردیا گیا جس کے بعد ملازمین کے لیے نوکری کا تحفظ ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔

رضا ربانی نے بتایا کہ پی آئی اے کے سی ای او نے وزیراعظم عمران خان کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’ادارے کا سب سے بڑا مسئلہ 14 ہزار ملازمین ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ سی ای او کورونا وائرس کی آڑ میں وہ پی آئی اے میں چھانٹی کرنا چاہتے ہیں۔

ایسی تحقیقات ہونی چاہیے جس سے سب مطمئن ہوں، شیری رحمٰن

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمٰن نے سینیٹ میں خطاب کے دوران کہا کہ کراچی میں طیارہ حادثے کے بعد پی آئی اے کے سی ای او نے حادثے کی ذمہ داری پائلٹ پر عائد کردی جس کے بعد کمیشن اور انکوائری مشکوک ہو چکی ہے۔

مزید پڑھیں: 'میرا وعدہ ہے کہ طیارہ حادثے کی صاف و شفاف انکوائری ہوگی'

انہوں نے کہا کہ ’ایسی تحقیقات ہوں جس سے سب مطمئن ہوں، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پائلٹ لینڈنگ گئیر کھولنا بھول جائے‘۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ ’ایسے کاغذی کمیشن بنا کر عملے کے ممبران کا استحصال کیا جا رہا ہے'۔

کنٹرول ٹاور کے افسر کو گرفتار کیا گیا تاکہ مرضی کا بیان لیا جاسکے، ظفرالحق

سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما راجا ظفر الحق کا کہنا تھا کہ ’اگر پائلٹ کی غلطی ہو وہ تو آکر نہیں کہہ سکتا کہ غلطی مجھ سے نہیں ہوئی، کمپنی کی غلطی ہو تو بہت معاوضہ دینا پڑتا ہے اس لیے پہلے دن سے اس حادثے کو پائلٹ کی غلطی کا رخ دیا گیا‘۔

راجا ظفر الحق نے الزام لگایا کہ’ کنٹرول ٹاور میں افسر کو حادثے کے پہلے دن گرفتار کر لیا گیا تھا تاکہ وہ وہی بیان دے جو ہم کہیں، پھر اس نے بیان دیا کہ پائلٹ نے میری بات نہیں مانی‘۔

یہ بھی پڑھیں: طیارہ حادثہ: ورثا کو فی کس 50 لاکھ روپے ملیں گے، ترجمان پی آئی اے

علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ ’امریکا سے ای بلاگر نے محترمہ بینظیر بھٹو کے حوالے سے بیہودہ الزام لگایا جس کو میڈیا نے ہوا دی اور ایسا رخ دیا جس سے آدمی شرمندہ ہو جائے بالکل اسی طرح طیارہ حادثے کو بھی رخ دیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ایک طرف پائلٹ ہے جو اپنا دفاع نہیں کرسکتا، مرحوم پائلٹ کے ساتھ زیادتی ہوتے دیکھی جو غیر مناسب ہے‘۔

پی آئی اے طیارہ حادثہ

یاد رہے کہ 22 مئی کو پی آئی اے کی لاہور سے کراچی آنے والی پرواز رن وے سے محض چند سو میٹرز کے فاصلے پر رہائشی آبادی میں حادثے کا شکار ہوگئی تھی جس کے نتیجے میں جہاز کے عملے کے 8 اراکین سمیت 97 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جبکہ 2 مسافر معجزانہ طور پر محفوظ رہے تھے۔

اس حادثے کے بعد وفاقی حکومت نے سول ایوی ایشن کے رولز 1994 کے رول 273 کے سب رول ون کے تحت تحقیقات کے لیے 4 رکنی ٹیم تشکیل دی تھی۔

اس کے علاوہ طیارہ ساز کمپنی ایئربس کے ماہرین کی خصوصی ٹیم بھی پاکستان میں موجود تھی جو ایئرکرافٹ ایکسیڈینٹ انویسٹی گیشن بورڈ (اے آئی آئی بی) کے حکام کے ساتھ اس حادثے کی وجوہات معلوم کرنے کے لیے تحقیقات کررہی ہے۔

تباہ ہونے والے طیارے اے 320 کو تیار کرنے والی کمپنی ایئر بس نے 11 اے اے آئی بی کے تفتیش کاروں کو تکنیکی معاونت فراہم کرنے کے لیے 11 رکنی ٹیم پاکستان بھجوائی تھی۔

حادثے کی تحقیقات کے سلسلے میں ایئربس کی تحقیقاتی ٹیم نے مسلسل 3 روز جائے حادثہ کا دورہ کیا اور وہاں شواہد اکٹھے کیے جبکہ رن وے اور ایئر پورٹ کے احاطے کا بھی جائزہ لیا تھا۔

بعدازاں ٹیم اے اے آئی بی کے صدر ایئر کموڈور عثمان غنی کے ہمراہ طیارے کے بلیک باکس کے 2 اجزا کاکپٹ وائس ریکارڈر اور فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر لے کر فرانس واپس چلی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں