اقتصادی سروے: کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 73فیصد کمی کی گئی، عبدالحفیظ شیخ

اپ ڈیٹ 11 جون 2020
مشیر خزانہ کے مطابق موجودہ حکومت کو بحران ورثے میں ملا، ہمارے اخراجات آمدن سے کافی زیادہ تھے-فوٹو:ڈان نیوز
مشیر خزانہ کے مطابق موجودہ حکومت کو بحران ورثے میں ملا، ہمارے اخراجات آمدن سے کافی زیادہ تھے-فوٹو:ڈان نیوز

وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ مالی سال 20-2019 میں مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو کا تخمینہ منفی 0.4 فیصد ہے، اس میں زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 2.67 فیصد ہے جس میں صنعت خاص طور پر متاثر ہوئی اور اس میں ترقی کی شرح منفی 2.64 ہے۔

خدمات کا شعبہ جس میں کاروباری طبقہ ہے جسے ہم ہول سیل اور ریٹیل ٹریڈ کہتے ہیں اس میں منفی 3.4 فیصد شرح نمو ہے۔

اسلام آباد میں اقتصادی سروے 20-2019 پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ موجودہ حکومت کو بحران ورثے میں ملا، ہمارے اخراجات آمدن سے کافی زیادہ تھے۔

انہوں نے کہا کہ برآمدات کی شرح صفر رہی جبکہ گزشتہ حکومت کے آخری 2 سالوں میں غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر 16 اور 17 ارب ڈالر سے گر کر 9 ارب ڈالر کے قریب پہنچ گئے تھے۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ ڈالر سستا رکھا گیا جس کے باعث درآمدات، برآمدات سے دگنی ہوگئیں اور ان تمام چیزوں کا اثر یہ ہوا کہ ہمارے پاس ڈالر ختم ہو گئے کہ ہم اپنی معیشت کو اچھے انداز میں چلا سکتے اور اس وقت میں ہمارے قرضے بڑھ کر 25 ہزار ارب روپے ہو چکے تھے۔

مزید پڑھیں: آئندہ بجٹ میں نان فائلرز کیلئے سخت اقدامات متعارف کروانے کا امکان

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر قرض اور واجبات کو بھی ملایا جائے تو ہمارے قرضے تقریباً 30 ہزار ارب یا 30 کھرب روپے بن چکے تھے۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس میں ہم بیرونی اکاؤنٹ میں ڈیفالٹ کی جانب دیکھ رہے تھے، ہمارے اخراجات آمدن سے کافی زیادہ تھے۔

انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر ہم اپنی حکومت میں جو شرح نمو حاصل کر رہے تھے وہ باہر سے قرض لے کر ملک کے اندر خرچ کر رہے تھے تو ایسی صورتحال میں سب سے پہلی چیز یہ تھی کہ ہم مزید وسائل یعنی ڈالرز کو متحرک کریں۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں حکومت نے کافی کوششیں کی اور کچھ ممالک سے قرض اور مؤخر شدہ ادائیگیوں پر تیل حاصل کیا اور اس کے ساتھ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 6 ارب ڈالر کا پروگرام طے کیا۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت نے ٹیکسز کو بہتر کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا اور سب سے بڑھ کر اپنے ملک کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے اپنے کاروبار کو مراعات دینے کے لیے کاروباری شعبے کے لیے گیس، بجلی اور قرضوں کے لیے حکومت نے اپنی جیب سے پیسے دے کر سستے کیے۔

'کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو 20 ارب سے 3 ارب ڈالر تک لے آئے'

انہوں نے کہا کہ ان وجوہات کی بنا پر ہم بیرونی طور پر معیشت کو درپیش خطرات سے نمٹ رہے ہیں اور ورثے میں ملنے والے 20 ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرکے ہم 3 ارب ڈالر تک لے آئے۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ یہ حکومت کا بہت بڑا کارنامہ ہے کہ پہلے سال اور خصوصی طور پر اس سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 73 فیصد کمی کی گئی۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ دوسری اہم چیز ہے کہ رواں سال اور پچھلے سال مجموعی طور پر 5 ہزار ارب روپے قرضوں کی مد میں واپس کیے گئے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہت اہم چیز ہے کہ ایک ملک ماضی میں لیے گئے قرضے چاہے وہ کتنے ہی بڑی تعداد میں کیوں نا ہوں، وہ واپس کرے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی موجودہ حکومت نے ماضی کے قرضوں کے بوجھ کو واپس کرنے کے لیے قرضے لیے اور ماضی کے قرضوں کی مد میں 5 ہزار ارب روپے واپس کیے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا 21-2020 کیلئے ٹیکس فری بجٹ پیش کرنے کا امکان

ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ تیسری بہت اہم چیز جو اس سال ہوئی ہے وہ یہ کہ ہم نے اس سال بہت سخت انداز میں حکومت کے اخراجات کو کنٹرول کیا اور یہ شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں ہوا ہو کہ ہم نے اس انداز میں کنٹرول کیا کہ پرائمری بیلنس قائم ہوگیا ہے یعنی ہمارے اخراجات، آمدن سے کم ہوگئے جس سے پرائمری بیلنس سرپلس ہوگیا یہ شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں کبھی ہوا ہو۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ میں اس کے لیے سیکریٹری خزانہ اور وزارت خزانہ کی پوری ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وزیر اعظم نے اس شعبے میں قیادت دکھائی اور آرمی چیف کا بھی شکر گزار ہوں کہ ہم نےفوج کے بجٹ کو منجمد کیا۔

'اسٹیٹ بینک سے ایک ٹکا بھی قرض نہیں لیا'

انہوں نے کہا کہ ایک فلسفہ یہ تھا کہ ہم حکومت کے اخراجات کم کر کے عوام کے لیے جتنے زیادہ پیسے ہوں وہ دیں لہٰذا ہم نے پورا سال اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے ایک ٹکا بھی قرض نہیں لیا۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ ہم نے پورا سال کسی بھی ادارے اور کسی بھی حکومتی وزارت کو ایک ٹکا بھی اضافی گرانٹ نہیں دی کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ پاکستان کے عوام کے پیسے کو بہت احتیاط سے خرچ کیا جائے اور اس کا اثر آپ نے دیکھا کہ کورونا وائرس آنے سے پہلے ہم پرائمری سرپلس کے ایریا میں چلے گئے تھے۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے کوشش کی ہم اپنے لوگوں کو بنیادی سہولیات دیں، ان کے لیے انفرااسٹرکچر یعنی سڑکیں، پُل، ہسپتال بنائیں اور جتنا ممکن ہو باہر کی چیزوں اور باہر کی دنیا پر انحصار کم کریں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ٹیکسز میں بہت اچھی کامیابی حاصل کی اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے پہلے ٹیکسز میں 17فیصد اضافہ ہوا، ہم نے درآمدات میں کمی کی تاکہ ڈالر کو بچائیں تو درآمدات کی کمی کی وجہ سے ٹیکس ریونیو میں بھی کمی ہوئی ورنہ ٹیکسز بڑھنے کی رفتار ایف بی آر میں تقریبا 27 فیصد جا رہی تھی۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ اب ٹیکسز میں اطمینان بخش اضافہ ہوا ہے، اخراجات میں زبردست کمی اور نظم و ضبط آیا ہے، باہر کے قرضوں کو خوش اسلوبی سے واپس کیا گیا اور اپنے تعلقات تجارت کی بنیاد پر دنیا کے ساتھ برقرار رکھے اور برآمد کنندگان کی مدد کی تاکہ وہ اپنی برآمدات بڑھائیں۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت کی پانچویں اور شاید ایک بہت بڑی کامیابی یہ رہی کہ وزیراعظم عمران خان کا وژن ہے کہ ہر چیز کا محور پاکستان کے عوام ہیں اور وہ عوام جو کمزور طبقے سے ہیں، جنہیں بھلادیا گیا ہے اور جن کے لیے ماضی میں بہت کم کام کیا گیا۔

نان ٹیکس ریونیو میں اضافہ

انہوں نے کہا کہ ہم نے کم بجٹ کے باوجود ڈاکٹر ثانیہ نشتر کی وزارت سماجی تحفظ کا احساس بجٹ دگنا کیا اور اسے تقریباً 100 ارب سے 192 ارب روپے کردیا گیا اور یہ رقم ایسے سوشل سیفی نیٹس کے لیے رکھی کہ عام آدمی تک یہ پیسے اچھے انداز میں پہنچائے جائیں اور اس طریقے سے پہنچائے جائیں کہ ساری دنیا دیکھے کہ اس میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ احساس پروگرام میں کوئی علاقائی مداخلت یا تعصب نہیں، کوئی مذہبی تفریق بھی نہیں اور اس کی ترجیح پاکستان کے وہ لوگ ہیں جو غرب یا کم آمدنی والے لوگ ہیں، ایسے جذبے کی بنیاد پر ہمارے قبائلی علاقوں کے ضم شدہ اضلاع تھے ان کے لیے بھی 152 ارب روپے رکھے گئے۔

مزید پڑھیں: رواں مالی سال خسارہ بڑھے گا، محصولات کا ہدف حاصل کرنا ممکن نہیں، حفیظ شیخ

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ ہمارے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں حکومت کی جانب سے 701 ارب روپے اور نجی شعبے سے منصوبے کے لیے 250 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ دوسری جانب حکومتی آمدنی بڑھانے کے لیے جو نان ٹیکس ریونیو ہیں، جو بجٹ میں ایک ہزار ایک سو ارب تھے، اس کو ہم نے سرپاس کیا اور وہ بڑھ ایک ہزار 600 ارب کی سطح تک پہنچے، ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا، یہ سب چیزیں ہم نے کورونا وائرس کے آنے سے پہلے حاصل کیں، پھر کورونا وائرس آیا اور اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

'دنیا کی آمدن میں 3 سے 4 فیصد کمی آئے گی'

مشیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کی پیش گوئی ہے کہ کورونا وائرس کے باعث دنیا کی آمدن میں 3 سے 4 فیصد کمی آئے گی، اس سے خصوصی طور پر ترقی پذیر ممالک متاثر ہوں گے کیونکہ ان کی برآمدات بھی متاثر ہوں گی۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ اس سے پاکستان کی ترسیلات زر بھی متاثر ہوں گی کیونکہ جو لوگ خلیجی ممالک، امریکا اور برطانیہ میں کام کرتے ہیں، ان کی آمدنی کم ہو گی، یا وہ بیروزگار ہوں گے تو ہمارے پاس کم پیسے آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اگر دنیا کی طلب کم ہوتی ہے تو ہماری برآمدات بھی منفی طور پر متاثر ہوں گی اور ایسا ہوا بھی ہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے جو ملک میں اقتصادی طور پر استحکام پیدا کیا تھا، اس کے نتیجے میں وہ بھی متاثر ہوا اور پاکستان کی جی ڈی پی کا اندازہ لگایا گیا کہ اس کی وجہ سے کوئی 3 ہزار ارب کا نقصان پہنچا۔

ٹیکس ریونیو میں کمی

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ کورونا کے بارے مں کوئی بھی چیز یقین سے کہنا مشکل ہے کیونکہ مختلف لوگ مختلف طریقوں سے اندازے لگارہے ہیں کہ کس چیز پر کتنا اثر ہوا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پورے ملک کی آمدنی 0.4 فیصد کم ہوگئی حالانکہ ہم سمجھ رہے تھے کہ آمدنی 3 فیصد بڑھے گی، تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں قومی آمدن میں 3 سے ساڑھے 3 فیصد نقصان دیکھنا پڑا۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ اس کے ساتھ ہماری برآمدات بھی متاثر ہوئیں، ترسیلات زر زیادہ متاثر نہیں ہوئی لیکن اب متاثر ہونے جا رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اُمید تھی کہ ایف بی آر کی ٹیکس محصولات اگر اسی رفتار سے چلتے رہے تو 4 ہزار 700 ارب تک پہنچ سکتی تھی لیکن وہ اب 3 ہزار 900 تک بمشکل پہنچ رہی ہے، اس طرح ایف بی آر کو ٹیکس محصولات کی مد میں 850 سے 900 ارب کا نقصان ہوا۔

'ایک کروڑ 60 لاکھ خاندانوں کو رقم دینے کا فیصلہ کیا'

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ قدرتی امر ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ اس مشکل وقت میں اپنی کاروباری برادری پر ٹیکسز کی گرفت مضبوط کریں کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم ان کی مدد کریں اور ان تک قرضے یا نقد رقم پہنچائیں تاکہ ملک میں جو کورونا کی وجہ سے سکڑتی ہوئی معیشت بن رہی ہے اس سے اچھی طرح نبرد آزما ہو سکیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے ہی فیصلہ کیا تھا کہ ہم نے معیشت کو کورونا وائرس سے اچھے انداز میں بچانا ہے اور اپنے لوگوں کو بچانا ہے اور اس کے لیے لیے دوطرح کے پیکج دیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف سے اخراجات منجمد کرنے، 49 کھرب کے ریونیو ہدف پر اتفاق

مشیر خزانہ نے کہا کہ ایک ہزار 240 ارب روپے کا ایک پیکج دیا گیا اور دوسری جانب اسٹیٹ بینک کو سبسڈیز بھی دی گئیں، ان کے ذریعے مختلف پروگرامز پر عملدرآمد کرایا گیا تاکہ لوگوں خصوصاً چھوٹی کاروباری کمپنیوں کو پیسے میسر ہوں تاکہ وہ اپنے لوگوں کو کمپنی کے پے رول پر برقرار رکھ سکیں۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ ان پیکجز کے تحت ایک کروڑ 60 لاکھ خاندانوں کو رقم دینے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ ان کا کاروبار زندگی بھی چلے اور ان کی حالت معاشی طور پر بالکل تباہ نہ ہو۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ اب تک ایک کروڑ خاندانوں کو پیسے دیے جا چکے ہیں جو شاید دنیا کی تاریخ میں ایک نمایاں چیز ہے کہ یہ سب اتنے اچھے انداز میں دیے گئے ہیں اور پوری دنیا نے دیکھا کہ عام پاکستانیوں کو بلا امتیاز یہ پیسے دیے گئے۔

'زراعت کے شعبے میں 50 ارب روپے کی اسکیمز لائے'

انہوں نے کہا کہ ہم نے 280 ارب روپے کی گندم خریدی اور کسانوں اور زراعت کے شعبے میں روپے پہنچائے گئے، یہ ہر سال حکومت کی پالیسی ضرور ہے لیکن اس سال اس تعداد کو پچھلے سال کے مقابلے میں دگنا کیا گیا۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ یہ بھی یقینی بنایا گیا کہ گندم خریدی جائے تاکہ جب کسانوں کے ہاتھ میں یہ پیسے آئیں گے تو وہ اپنے ضروریات زندگی بھی پورے کریں گے اور ساتھ ہی ساتھ انہیں ٹریکٹر چاہیے، انہیں گھر بنانا ہے، مویشی خریدنے ہیں یا سرمایہ کاری کرنی ہے تو وہ کریں جس سے معیشت کا پہیہ چلے گا۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کارخانوں اور انٹرپرائزز کے بجلی کے 3 ماہ کے بل حکومت ادا کرے گی تاکہ ان کے کاروبار کی بحالی میں مدد کر سکے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ زراعت کے شعبے میں 50 ارب روپے کی اسکیمز لائے تاکہ کھاد کی قیمتیں کم ہوں اور ٹڈی دل کا مقابلہ کیا جا سکے اور کسانوں کو مراعات دی جا سکیں۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کو یہ سہولت دی گئی کہ وہ 50 لاکھ کے بجائے ایک کروڑ دکانوں تک اور یوٹیلیٹی اسٹورز کے لیے 50 ارب روپے مختص کیے گئے۔

'کم آمدن والے افراد کے ذاتی گھروں میں مدد کیلئے 30 ارب روپے رکھے گئے'

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ وزیراعظم کا وژن ہے کہ کم آمدن والے افراد کو گھر بنانے میں مدد کی جائے اور اس کے لیے 30 ارب روپے رکھے گئے ہیں تاکہ وہ خود ایک گھر کے مالک بن سکیں اور اس میں ٹیکسز کی چھوٹ بھی دی گئی۔

وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ نے کہا کہ تعمیراتی صنعت کے لیے ایک پیکج دیا گیا جس میں فکس ٹیکس کی بنیاد پر ٹیکسز دیے گئے تاکہ ایف بی آر کی طرف سے ہراساں نہ کیا جاسکے اور ٹیکسز کی شرح کو بھی کافی حد تک کم کیا گیا۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ نیا پاکستان اسکیم کے تحت کم آمدنی والے افراد کے لیے جو گھر بنیں گے تو اس میں ٹیکس میں بھی 90 فیصد کی چھوٹ دی گئی ہے یعنی اگر شروع میں ٹیکس 5 ہزار ہیں تو بعد میں اسے ڈھائی ہزار کردیا گیا تاکہ لوگوں پر بوجھ نہ پڑے۔

مزید پڑھیں: حکومت اور آئی ایم ایف کے ریونیو اہداف میں بڑا فرق

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ لینڈ بینک بنائیں تاکہ سرکاری زمین کے اوپر کم آمدنی کے گھر بنائے جا سکیں۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ جو سال مکمل ہورہا ہے اس میں جی ڈی پی کی شرح نمو کا تخمینہ منفی 0.4 فیصد ہے، اس میں زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 2.67 فیصد ہے، صنعت خاص طور پر متاثر ہوئی اور اس میں ترقی کی شرح منفی 2.64 ہے اور خدمات کے شعبے میں یہ شرح منفی 3.4 فیصد ہے۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ مینوفیکچرنگ میں کافی کمی ہوئی جو منفی 22.9 فیصد رہی۔

انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ٹرانسپورٹ، ریلوے اور ایئر ٹرانسپورٹ بند رہے تو اس میں منفی ترقی ہوئی اور یہ شرح منفی 7.1 ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مال سال کے خسارے (fiscal deficit) کو ہم نے ایک حد تک رکھا اور جولائی سے مارچ تک جی ڈی پی کا 4 فیصد رہا جبکہ پچھلے سال یہ خسارہ 5.1 فیصد تھا، ہم نے پرائمری بیلنس کو سرپلس میں رکھا تھا جو 194 ارب یا 0.5 فیصد تھا۔

افراط زر

اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق جولائی 2019 سے اپریل 2020 کے عرصے کے دوران صارف قیمت اشاریہ (چی پی آئی) افراط زر 11.22 فیصد رہی جو گزشتہ مالی سال اس عرصے میں 6.51 فیصد تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ جلدی خراب ہونے والی کھانے کی اشیا کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا اور اس شعبے میں مہنگائی کی شرح 34.7 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

'آئندہ بجٹ میں کوشش ہوگی نئے ٹیکسز نہ لگائے جائیں'

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ آنے والے بجٹ میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے لوگوں کو مزید مراعات اور مزید ریلیف دیں اور سماجی تحفظ کے جو پروگرامز ہیں، ان میں مزید فنڈنگ دیں تاکہ وہ لوگوں تک پہنچ سکیں اور ہم اپنی صنعت کو اچھے انداز میں چلا سکیں۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ ہماری خصوصی طور پر کوشش ہو گی کہ نئے ٹیکسز نہ لگائے جائیں اور جو ٹیکسز ہیں ان کا بھی جائزہ لیا جائے، جو ٹیکسز ہیں ان میں کمی لائی جائے تاکہ لوگوں کو معاشی ریلیف پیکج مل سکے اور صورتحال سے بہتر انداز میں نمٹ سکیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے اثرات کا تخمینہ لگانا اتنا آسان نہیں اور حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ وبا کس رفتار سے بڑھے گی اور کب اس کا خاتمہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے کوشش کی ہے کہ ایک توازن قائم کیا جائے، ایک جانب لوگوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے تو دوسری جانب ان کی معاشی صورتحال کو بہت خراب ہونے سے بچانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

شرح نمو منفی 0.5 فیصد رہنے کا تخمینہ

شرح نمو کے حوالے سے مشیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے شماریات بیورو اور نیشنل اکنامک باڈی کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق تخمینہ لگایا ہے کہ شرح نمو منفی 0.5 فیصد ہوگی جبکہ آئی ایم ایف نے جو نمبر استعمال کیا ہے وہ منفی 1.5فیصد ہے۔

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں عالمی بینک کی ایک رپورٹ آئی ہے جو منفی 2.5 فیصد پر ہے اور جب جون کا مہینہ ختم ہو گا تو ہمیں زیادہ بہتر اندازہ ہوگا۔

ایک سوال کے جواب میں مشیر خزانہ نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ آئی ایم ایف ہر کسی کے پاس مدد کے لیے بھاگ رہا ہوتا ہے، آئی ایم ایف ایک بینک ہے تو وہ چاہتے ہیں جو بھی ان سے قرض لے وہ اس انداز میں معیشت کو چلائے کہ قرض واپس کرنے کا اہل ہو۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نےکہا کہ ایسی کوئی بات نہیں کہ آئی ایم ایف ناراض نہیں، حکومتی اور ان کے اراکین بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کورونا کے معاملے پر آئی ایم ایف نے ریلیف دیا، تعمیراتی صنعت سے متعلق انہوں نے لچک دکھائی اور وہ چاہتے ہیں کہ ہم بھی منظم طریقے سے چلیں۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ بیرونی شعبے کا بنیادی نمبر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے جسے 3 ارب ڈالر تک کم کردیا اور یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ حکومت نے اخراجات، آمدن سے کم کیے۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ زرمبادلہ کی شرح کے نظام میں استحکام لایا گیا، جب اسے مصنوعی طریقے سے مستحکم کیا گیا تو درآمدات میں اضافہ ہوگیا تھا لیکن اب کئی ماہ سے درآمدات مستحکم ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سال براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 127 فیصد اضافہ ہوا، نان ٹیکس ریونیو کا ہدف ایک ہزار ایک سو تھا اور حکومت نے ایک ہزار 6 سو ارب روپے جمع کیے۔

ایک سوال کے جواب میں مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہمیشہ تجاویز 9 ماہ کی بنیاد پر ہوتی ہیں، یہ اعداد و شمار اس لیے کم ہیں کہ آخری سہ ماہی میں کورونا وائرس آگیا تھا اور اگر 9 مہینے کی بنیاد پر بتایا جاتا تو جی ڈی پی 2.5 سے 3 کے درمیان ہوتا لیکن چونکہ ہم اسے کورونا وائرس کے بعد دکھا رہے ہیں اس لیے یہ منفی 0.4 ہے۔

محصولات وصولی میں 17 فیصد اضافہ ہوا، چیئرپرسن ایف بی آر

پریس کانفرنس کے دوران وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) کی چئیرپرسن ڈاکٹر نوشین جاوید امجد نے کہا کہ مالی سال 20-2019 میں محصولات وصولی کی شرح میں مجموعی طورپر17 فیصد اضافہ ہوا جو گزشتہ سال کی بلند ترین شرح ہے۔

نوشین جاوید امجد نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے محصولات وصولی میں مشکلات پیداہوئیں جس کی وجہ سے مجموعی اضافہ 13فیصد ہوگیا لیکن اگر وبا نا آتی تو ٹیکس وصولی میں مزید اضافہ ہوتا اور ہم ہدف پورا کرپاتے۔

غیر ملکی زرمبادلہ ساڑھے 18 ارب ڈالر ہوجائیں گے، خسرو بختیار

وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور خسرو بختیار نے کہا کہ وزیراعظم عمران خانے جب 'جی 20' ممالک سے قرضوں میں ریلیف کی اپیل کی تو ہمیں ارب 80 کروڑ ڈالر کا ریلیف ملا۔

انہوں نے کہا کہ پوری دنیا کے مالیاتی ادارے اس وقت پاکستان کے اصلاحاتی پروگرام کو سراہتے ہوئے ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کررہے ہیں۔

خسرو بختیار نے کہا کہ آئی ایم ایف نے کووڈ-19 کے ایک ارب 40 کروڑ ڈالر دیے اور گزشتہ روز ایشیائی ترقیاتی نے کورونا وائرس سے متعلق 50 کروڑ روپے کی خصوصی فنانسنگ کی۔

انہوں نے کہا کہ جہاں اس حکومت نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 3.3 ارب ڈالر تک کم کیا اسی طرح ہمیں ورثے میں جو 9 ارب 70 کروڑ ڈالر کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ملے تھے وہ اس سال کے آخر تک ساڑھے 18 ارب ڈالر سے زائد ہوجائیں گے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اس اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کو بھی معاشی دھچکے ملے وہ بیرونی مالی پوزیشن، ادائیگیوں میں عدم توازن، کرنٹ اکاونٹ خسارے کی وجہ سے ملے اور اب حکومت ان چیزوں کو اس طرف لے آئی ہے کہ ہم ایک مستحکم پوزیشن پر ہیں۔

خسرو بختیار کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ہی کورونا وائرس کے باعث معیشت کا پہیہ چلانا اور اس کے ساتھ زراعت کو ساتھ لے کرچلایا، وزیراعظم نے زرعی ایمرجنسی پروگرام کے تحت 300 ارب روپے کا ایک مربوط زرعی ترقیاتی بجٹ رکھا ہے جو بڑی فصلوں کی پیداوار، آبپاشی کے نظام کو بہتر بنائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پوری دنیا، آئی ایم ایف، عالمی بینک،ایشیائی ترقیاتی بینک اور ایشین انفراسٹرکچر بینک انہی چیزوں کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔

ایک کروڑ سے زائد خاندانوں میں 121 روپے تقسیم کیے گئے، ڈاکٹر ثانیہ نشتر

وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے سماجی تحفظ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ ملک میں انتہائی مشکل میں کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے باعث احساس ایمرجنسی کیش پروگرام شروع کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام ایک کروڑ 20 لاکھ خاندانوں کے لیے منظور ہوا تھا اور آج ہی وزیراعظم نے اس کا دائرہ کار ایک کروڑ 20 لاکھ خاندانوں تک بڑھانے کی منظوری دی ہے۔

ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ پچھلے 9 ہفتوں میں ایک کروڑ سے زائد خاندانوں کی مالی معاونت کی اور اس مد میں 121 ارب روپے تقسیم کیے جاچکے ہیں۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کی فی الحال 4 کیٹیگریز ہیں اور تیسری کیٹیگری کی ادائیگیاں چل رہی ہیں جبکہ چوتھی کیٹیگری جس کی فنڈنگ وزیراعظم کے کووڈ فنڈ سے ہوگی اس کی ادائیگیوں کا بھی آغاز کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس پروگرام میں شفافیت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے، پروگرام شروع ہونے سے قبل ہی جاری کی گئی ویڈیوز میں اس کا طریقہ کار بتایا گیا تھا اور اب آئندہ ہفتے اس حوال سے تفصیلی رپورٹ جاری کی جائے گی۔

ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ اس حوالے سے کراچی سے گلگت تک ہزاروں احساس سینٹرز نے بیک وقت کام کیا اور لوگوں کی مدد کے لیے رضاکاروں کو متحرک کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے لوگوں کے پیسے کاٹنے والے بدعنوان عناصر کے خلاف کارروائی کی، بائیو میٹرک مسائل کو حل کیا، ایس او پیز اور دیگر منظوریوں سمیت پوری حکومتی مشینری نے مل کر کام کیا۔

فروری میں برآمدات میں 14 فیصد اضافہ ہوا، مشیر تجارت

مشیر تجارت رزاق داؤد نے کہا کہ جب ملک میں حکومت آئی تو کہا جارہا تھا کہ برآمدات جمود کا شکار ہیں تو ہم نے اسی پر توجہ مرکوز کی۔

مشیر تجارت نے کہا کہ برآمد کنندگان نے سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس کے لیے ری فنڈ کا مطالبہ کیا اور جس کا نتیجہ یہ نکلا یہ فروری 2020 میں گزشتہ برس کے مقابلے میں برآمدات میں 14 فیصد اضافہ ہوا تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم درست سمت میں جارہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ مارچ میں کورونا وائرس آنے کے بعد برآمدات میں منفی 6فیصد، اپریل میں منفی 55 فیصد اور مئی میں منفی 34 فیصد ہوگئی تھی۔

مشیر تجارت نے کہا کہ اس وقت چین سے تجارت ایک ارب 60 کروڑ ڈالرز ہے جس میں 8 فیصد کمی آئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں