توشہ خانہ ریفرنس: نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری

اپ ڈیٹ 11 جون 2020
احتساب عدالت نے دفتر خارجہ کو برطانیہ میں پاکستانی سفارتحانے کے ذریعے وارنٹس کی تعمیل کا حکم  بھی دیا۔ فائل فوٹو:اسکرین شاٹ
احتساب عدالت نے دفتر خارجہ کو برطانیہ میں پاکستانی سفارتحانے کے ذریعے وارنٹس کی تعمیل کا حکم بھی دیا۔ فائل فوٹو:اسکرین شاٹ

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ سے قیمتی گاڑیاں اور تحائف وصول کرنے سے متعلق ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔

وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت میں توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت جج اصغر علی نے کی، اس دوران سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور عبدالغنی مجید احتساب عدالت میں پیش ہوئے تاہم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری غیر حاضر رہے۔

دوران سماعت نیب استغاثہ سردار مظفر عباسی اور تفتیشی افسر عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور عدالت سے نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کرنے کی استدعا کی۔

نیب استغاثہ کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق عدالت حالات کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی راستہ اپنا سکتی ہے اور عدالت چاہے تو برطانوی اخبارات میں نواز شریف کے وارنٹس شائع کروا سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تفتیشی افسر خود قابل ضمانت وارنٹ لے کر جاتی امرا گئے تھے جہاں سیکیورٹی گارڈ نے کہا کہ نوازشریف یہاں موجود نہیں ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ نوازشریف ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں اس وقت رہائش پذیر ہیں۔

عدالت میں آصف زرداری کی طرف سے فاروق ایچ نائیک نے وکالت نامہ جمع کرایا اور عدالت کو بتایا کہ آصف زرداری کراچی میں ہیں اور بیمار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آصف زرداری اگر اسلام آباد آئے تو یہ کمرہ عدالت لوگوں سے بھر جائے گا، کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال میں انہیں کو ذاتی حیثیت میں طلب نہ کیا جائے'۔

انہوں نے کہا کہ ’سابق صدر نے پہلے بھی مقدمات کا سامنے کیا ہے کہیں نہیں بھاگیں گے'۔

مزید پڑھیں: توشہ خانہ ریفرنس: نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری جاری

احتساب عدالت کے جج نے استفسار کیا کہ ’ہم آصف زرداری کے جس پتے پر سمن بھیجتے ہیں تو جواب آتا ہے وہ یہاں موجود نہیں، ہمیں بھی وہ پتہ لکھ کر دیں جہاں آصف زرداری موجود ہیں‘۔

جج کے استفسار پر فاروق ایچ نائیک نے آصف زرداری کا کراچی کا پتہ لکھ کر انہیں دے دیا۔

اس موقع پر سردار مظفر نے عدالت میں کہا کہ ’آصف زردرای کو ایک بار خود لازمی پیش ہونا پڑے گا، انہیں اب سمن نہیں وارنٹ بھیجیں‘ جس پر جج نے کہا کہ ‘ایک بار ان کے موجودہ پتے پر سمن بھیج کر دیکھ لیتے ہیں‘۔

عدالت میں ریفرنس میں ملزم سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے حاضری سے مستقل استثنی کی درخواست دائر کر دی۔

درخواست میں ان کا کہنا تھا کہ ’کئی ارکان پارلیمنٹ کورونا کا شکار ہو چکے ہیں، کورونا کی وجہ سے بار بار پیش ہونا مشکل ہے، استثنیٰ دی جائے‘۔

بعد ازاں عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے۔

عدالت نے دفتر خارجہ کو برطانیہ میں پاکستانی سفارتحانے کے ذریعے وارنٹس کی تعمیل کا حکم بھی دیا۔

عدالت نے آصف علی زرداری کی جانب سے آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے بلاول ہاؤس کراچی کے پتے پر انہیں دوبارہ طلبی کا نوٹس جاری کیا۔

علاوہ ازیں عدالت نے یوسف رضا گیلانی کی مستقل حاضری سے استثنی کی درخواست پر نیب کو نوٹس جاری کیا۔

جس کے بعد احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت 30 جون تک ملتوی کر دی۔

توشہ خانہ ریفرنس

خیال رہے کہ احتساب عدالت میں قومی احتساب بیورو کے دائر کردہ ریفرنس کے مطابق یوسف رضا گیلانی پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو غیر قانونی طور پر گاڑیاں الاٹ کرنے کا الزام ہے۔

اس ریفرنس میں اومنی گروپ کے سربراہ خواجہ انور مجید اور خواجہ عبدالغنی مجید کو بھی ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف نے کاروں کی صرف 15 فیصد قیمت ادا کر کے توشہ خانہ سے گاڑیاں حاصل کیں۔

بیورو نے الزام عائد کیا کہ یوسف رضا گیلانی نے اس سلسلے میں نواز شریف اور آصف زرداری کو سہولت فراہم کی اور تحائف کو قبول کرنے اور ضائع کرنے کے طریقہ کار کو غیر قانونی طور پر نرم کیا۔

ریفرنس میں کہا گیا کہ آصف زرداری نے ستمبر، اکتوبر 2008 میں متحدہ عرب امارات سے مسلح گاڑیاں (بی ایم ڈبلیو 750 لی ماڈل 2005، لیکسز جیپ ماڈل (2007) اور لیبیا سے (بی ایم ڈبلیو 760 لی ماڈل 2008) حاصل کی۔

مذکورہ ریفرنس کے مطابق وہ فوری طور پر اس کی اطلاع دینے اور کابینہ ٖڈویژن کے توشہ خانہ میں جمع کروانے کے پابند تھے لیکن انہوں نے نہ تو گاڑیوں کے بارے میں مطلع کیا نہ ہی انہیں نکالا گیا۔

مزید پڑھیں: نیب کا آصف زرادری کے خلاف 8 مقدمات میں الزامات ثابت ہونے کا دعویٰ

نیب ریفرنس میں الزام لگایا گیا ہے کہ سال 2008 میں نواز شریف کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا اس کے باوجود اپریل تا دسمبر 2008 میں انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کوئی درخواست دیے بغیر اپنے فائدے کے لیے کابینہ ڈویژن کے تحت طریقہ کار میں بے ایمانی اور غیر قانونی طور پر نرمی حاصل کی۔

ریفرنس کے مطابق خواجہ انور مجید نے ایم ایس انصاری شوگر ملز لمیٹڈ کے اکاؤنٹس استعمال کرتے ہوئے آواری ٹاور کے نیشنل بینک کے ایک اکاؤنٹ سے 92 لاکھ روپے آصف زرداری کے اکاؤنٹ میں منتقل کیے۔

اس کے علاوہ انہوں نے ایک اکاؤنٹ کے ذریعے آصف زرداری کی جانب سے ایک کروڑ 11 لاکھ 17 ہزار 557 روپے کی ادائیگی کی، ملزم نے اپنی غیر قانونی اسکیم کے سلسلے میں آصف زرداری کے ناجائز فوائد کے لیے مجموی طور پر 2 کروڑ 3 لاکھ 17 ہزار 557 روپے ادا کیے۔

دوسری جانب خواجہ عبدالغنی مجید نے آصف زرداری کو ناجائز فائدہ پہنچانے کے لیے 3 ہزار 716 ملین (371 کروڑ 60 لاکھ) روپے کی خطیر ادائیگیاں کیں۔

نیب نے ان افراد پر بدعنوانی کا جرم کرنے اور نیب قوانین کے تحت واضح کی گئیں کرپٹ پریکٹسز میں ملوث رہنے کا الزام لگایا۔

نیب نے عدالت سے درخواست کی کہ ان ملزمان پر مقدمہ چلا کر سخت ترین جیل کی سزا دی جائے۔

خیال رہے کہ نواز شریف طبی بنیاد پر علاج کے لیے لندن میں ہیں جبکہ آصف علی زرداری ضمانت پر رہا ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں