پنجاب میں قرنطینہ مراکز کی بندش کا آغاز

اپ ڈیٹ 11 جون 2020
ان قرنطینہ مراکز میں کورونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کو قرنطینہ کیا جاتا تھا۔ اے ایف پی:فائل فوٹو
ان قرنطینہ مراکز میں کورونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کو قرنطینہ کیا جاتا تھا۔ اے ایف پی:فائل فوٹو

لاہور: پنجاب کی حکومت نے اپنی پالیسی میں تبدیلی کے بعد صوبے بھر میں قرنطینہ مراکز کو بند کرنا شروع کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان قرنطینہ مراکز میں کورونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کو قرنطینہ کیا جاتا تھا۔

ڈان کو معلوم ہوا ہے کہ نئی پالیسی کے تحت بیرون ملک سے لاہور اور دیگر ایئر پورٹس پر آنے والے افراد کی ٹیسٹنگ کے بجائے ان کی صرف تھرمل اسکینر کے ذریعے جانچ کی جارہی ہے۔

سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ ’یہ واقعی خطرناک ہے کیونکہ حکومت کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے جو اقدامات کررہی ہے اس کے نتائج کو مکمل طور پر نظر انداز کر رہی ہے، حکومت کو نئی پالیسی پر عمل درآمد روکنا چاہیے کیونکہ اگر اس پر عمل درآمد جاری رہا تو اس کے تباہ کن نتائج سامنے آئیں گے‘۔

مزید پڑھیں: لفظ ’قرنطینہ‘ کہاں سے آیا؟

لاہور میں بند کیے جانے والے قرنطینہ مراکز میں کالا شاہ کاکو، پنجاب یونیورسٹی، لاہور یونیورسٹی، ٹھوکر نیاز بیگ، رائیونڈ تبلیغ مرکز اور قذافی اسٹیڈیم (نشتر پارک) شامل ہیں۔

تاہم فیلڈ ہسپتال کا درجہ رکھنے والے جوہر ٹاؤن ایکسپو سینٹر میں تصدیق شدہ کیسز علاج جاری رہے گا۔

لاہور کے ڈپٹی کمشنر دانش افضال نے ڈان کو بتایا کہ ’ہاں ہم نے قرنطینہ مراکز بند کردیے ہیں اور یہ قرنطینہ پالیسی پر نظرثانی کرنے کے بعد کیا گیا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اس وقت، ہمارے پاس (بند کیے گئے) قرنطینہ مراکز میں کورونا وائرس کے مشتبہ مریض نہیں تھے گھروں پر آئی سولیشن کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کے بعد ان مراکز کی ضرورت نہیں ہے‘۔

انہوں نے واضح کیا کہ ضرورت پڑنے پر ان بند قرنطینہ مراکز کو دوبارہ کھولا جاسکتا ہے جبکہ ایکسپو سینٹر کی سہولت ایک فیلڈ ہسپتال ہے نہ کہ قرنطینہ مرکز، یہ کھلا اور فعال ہے جہاں کورونا وائرس مریض زیرعلاج ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: قرنطینہ کے 17 روز مشکل ضرور تھے لیکن بُرا تجربہ نہیں، گورنر سندھ

شہر میں وائرس کے مشتبہ مریضوں اور بیرون ملک سے لوٹنے والے افراد کے لیے یہ قرنطینہ مراکز قائم کیے گئے تھے تاہم اب نئی پالیسی کے مطابق ایسے تمام افراد، اور یہاں تک کہ جن میں وائرس کی تصدیق ہورہی ہے، کو اپنے گھروں میں خود کو آئی سولیشن میں رکھنے کی ہدایت کے ساتھ جانے کی اجازت دی جارہی ہے۔

ڈپٹی کمشنر نے وضاحت دی کہ ’ابتدائی طور پر قرنطینہ مراکز کا مقصد کورونا کے تمام مشتبہ مریضوں کو مختلف مقامات پر آئی سولیشن میں رکھنا تھا تاکہ وہ دوسروں کو متاثر نہ کرسکیں جس کی وجہ سے ہم نے مختلف مراکز میں ایک ہزار 800 کے قریب افراد کو آئی سولیشن میں رکھا تھا‘۔

پہلی پالیسی کے تحت مشتبہ مریضوں کو ٹیسٹ کے منفی نتائج آنے تک گھر جانے کی اجازت نہیں تھی جب کہ بیرون ملک سے واپس آنے والے افراد کو بھی 48 گھنٹوں تک آئی سولیشن میں رکھا جارہا تھا۔

جن افراد میں وائرس کی تصدیق ہوتی تھی انہیں ہسپتال میں داخل کرایا جانا ضروری تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں