ایک ہزار یورپی قانون سازوں کا اسرائیل سے فلسطینی علاقوں کو ضم نہ کرنے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 24 جون 2020
انہوں نے کہا کہ یہ اقدام اسرائیل فلسطین امن کے امکانات کے لیے مہلک ثابت ہوگا
—فوٹو: اے ایف پی
انہوں نے کہا کہ یہ اقدام اسرائیل فلسطین امن کے امکانات کے لیے مہلک ثابت ہوگا —فوٹو: اے ایف پی

25 ممالک سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد یورپی قانون سازوں نے تل ابیب پر زور دیا کہ اسرائیل، فلسطین میں مقبوضہ مغربی کنارے کے حصوں کو ضم کرنے کی منصوبہ بندی کو ترک کردے۔

واضح رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کے آزاد فلسطین کے علاقوں تک توسیع اور اس کے اسرائیلی ریاست میں انضمام کے منصوبے پر یکم جولائی سے کابینہ میں بحث شروع ہوگی۔

مزید پڑھیں: اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں کو ضم کیا تو آزاد ریاست کا اعلان کردیں گے،فلسطینی وزیراعظم

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق اخباروں میں شائع ہونے والے اور یورپی وزرائے خارجہ کو بھیجے گئے ایک خط میں ایک ہزار 80 قانون سازوں نے کہا کہ وہ 'اسرائیل کی جانب سے اس عمل کے نتیجے میں بین الاقوامی تعلقات پر اثرات کے بارے میں سخت پریشان ہیں'۔

مراسلے میں مزید کہا گیا کہ 'یہ اقدام اسرائیل فلسطین امن کے امکانات کے لیے مہلک ثابت ہوگا'۔

یورپی یونین کے قانون سازوں نے کہا کہ 'افسوسناک امر یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا منصوبہ بین الاقوامی سطح پر متعین اصول و ضوابط سے منافی ہو گیا ہے'۔

خط میں 3 مرتبہ امریکی صدر کا حوالہ دیا گیا لیکن اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے بارے میں براہ راست کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا، جو اب بھی فیصلہ کریں گے کہ فلسطین کا کس حد تک علاقہ ضم ہونا چاہیے۔

قانون سازوں نے اسرائیل اور فلسطین تنازع کے پرامن حل کے لیے یورپ کے طویل مدتی وعدوں کی تعریف کی اور کہا کہ 'ہم یورپی رہنماؤں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس چیلنج کے جواب میں فیصلہ کن انداز میں عمل کریں'۔

مزید پڑھیں: اسرائیل، فلسطینی سرزمین کے انضمام کی باتیں بند کرے، متحدہ عرب امارات

انہوں نے کہا کہ 'یورپ کو بین الاقوامی اداکاروں کو ساتھ مل کر اسرائیلی منصوبے کو روکنے کی کوشش میں مرکزی کردار ادا کرنا چاہیے'۔

خیال رہے کہ یورپی یونین اسرائیل کو اپنے منصوبے سے پیچھے ہٹانے پر راضی کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اگر اسرائیلی وزیراعظم آگے بڑھے تو اس کے جواب میں انتقامی اقدامات پر زور دے رہے ہیں۔

تاہم اسرائیل پر پابندیوں کے لیے تمام 27 ممبر ممالک کے معاہدے کی ضرورت ہوگی۔

اس سے قبل فلسطین کے وزیر اعظم محمد اشتیہ نے کہا تھا کہ اگر اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں کو ضم کیا تو فلسطین مقبوضہ بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے تمام مغربی کنارے اور غزہ پر ریاست کا اعلان کردے گا۔

فلسطینی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اگر اسرائیل نے فلسطین کے زیر قبضہ علاقوں کو انضمام کرنے کا منصوبہ جاری رکھا تو تمام مغربی کنارے اور غزہ پر ریاست کا اعلان کریں گے اور عالمی سطح پر اس کو تسلیم کرانے کے لیے زور دیں گے۔

مزید پڑھیں: مغربی کنارے کا اسرائیل میں انضمام کیا گیا تو معاہدہ ختم کردیں گے، فلسطینی صدر

یاد رہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس نے 23 اپریل کو کہا تھا کہ اگر مقبوضہ مغربی کنارے کا اسرائیل میں انضمام کیا گیا تو فلسطینی حکام کے اسرائیل اور امریکا سے ہوئے معاہدے کو مکمل طور پر منسوخ تصور کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے امریکا اور اسرائیلی حکومت سمیت متعلقہ بین الاقوامی فریقین کو آگاہ کردیا کہ اگر اسرائیل نے ہماری زمین کے کسی حصے کا انضمام کرنے کی کوشش کی تو ہم ہاتھ باندھے نہیں کھڑے رہیں گے۔

خیال رہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات 2014 میں ختم ہوگئے تھے جبکہ فلسطین نے ٹرمپ کی جانب سے امن منصوبے کو پیش کیے جانے سے قبل ہی مسترد کردیا تھا۔

فلسطین اور عالمی برادری اسرائیلی آبادیوں کو جنیوا کنونشن 1949 کے تحت غیر قانونی قرار دیتی ہے جو جنگ کے دوران قبضے میں لی گئی زمین سے متعلق ہے جبکہ اسرائیل بیت المقدس کو اپنا مرکز قرار دیتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں