نجی اسکول کے 5 اساتذہ کے خلاف جنسی ہراسانی کا مقدمہ

اپ ڈیٹ 05 جولائ 2020
ایف آئی آر لاہور گرامر اسکول غالب مارکیٹ برانچ کے عملے کے پانچ اساتذہ کے خلاف کاٹی گئی — فائل فوٹو: ڈان
ایف آئی آر لاہور گرامر اسکول غالب مارکیٹ برانچ کے عملے کے پانچ اساتذہ کے خلاف کاٹی گئی — فائل فوٹو: ڈان

طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات پر نجی اسکول کی جانب سے برطرف کیے گئے 5 اساتذہ کے خلاف چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی درخواست پر ایف آئی آر کاٹ دی گئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایف آئی آر لاہور گرامر اسکول غالب مارکیٹ برانچ کے 5 اساتذہ پر طالبات کی جانب سے عائد کیے گئے جنسی ہراسانی کے الزامات کے بعد پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 292-اے، 500 اور 501 کے ساتھ ساتھ ٹیلی گراف ایکٹ کے سیکشن 25 کے تحت کاٹی گئی۔

مزید پڑھیں: لاہور: نجی اسکولوں کی طالبات کے اساتذہ پر جنسی ہراسانی کے الزامات، وزارت انسانی حقوق کا نوٹس

چائلڈ پروٹیکشن ویلفییئر بورڈ کی چیئرمین سارہ احمد نے کہا کہ بچوں کو مستقبل میں اس طرح کے مسائل سے بچانے کے لیے مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔

اس معاملے پر چائلڈ پروٹیکشن ویلفیئر بورڈ کی اس مقدمے میں رہنمائی کا دعویٰ کرنے والے ایڈووکیٹ احمد مجید نے کہا کہ جتنی بھی طالبات نے اپنے اساتذہ پر الزامات عائد کیے ہیں وہ 18 سال سے کم عمر ہیں جس سے وہ کمسن بن جاتی ہیں اور لہٰذا یہ معاملہ صرف ہراساں کرنے تک محدود نہیں رہے گا۔

وکیل احمد مجید نے مزید کہا کہ پاکستان پینل کوڈ میں 2018 میں کی گئی ترمیم کی بدولت سیکشن 292-اے، بی اور سی مضبوط ہو گئی ہے جہاں اس میں سزا کو پانچ سال سے بڑھا کر 20 سال کردیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی 10 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہراسانی کیس: طالبات کے مطالبات پیش، اسکول کے مزید 2 عہدیدار معطل

انہوں نے کہا کہ اگر سیکشن 292-اے کا اطلاق ہوتا ہے تو اکثر ملزمان پر سیکشن 292-بی کا بھی اطلاق ہو گا اور 292-سی مں سزا کی نشاندہی کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کس طرح کی تصاویر لڑکیوں کو دکھائی گئی ہیں وہ اے اور بی دونوں دفعات میں آتی ہیں البتہ یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ یہ کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کا معاملہ ہے۔

لاہور گرامر اسکول کے معاملے کے بعد سوشل میڈیا پر اساتذہ اور لڑکوں کے ہاتھوں ہراساں کیے جانے کے مزید واقعات بھی سامنے آئے ہیں جس کے بعد معاملے پر بڑے پیمانے پر بحث شروع ہو گئی ہے۔

خیال ریے کہ چند روز قبل سوشل میڈیا پر لاہور کے ایک بڑے تعلیمی ادارے کی طالبات کی جانب سے اساتذہ پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات سامنے آئے تھے۔

جس کے بعد اسکول انتظامیہ نے 4 مرد اساتذہ کو ہراسانی کے الزامات کے بعد ملازمت سے فارغ کردیا تھا لیکن اس خبر سے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی عدم تحفظ کے حوالے سے والدین اور ماہر تعلیم میں تشویش موجود ہے۔

لاہور کے علاقے غالب مارکیٹ میں قائم لاہور گرامر اسکول (ایل جی اسی) 1 اے 1 برانچ نے 8 طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور انہیں نازیبا تصاویر بھیجنے کے الزام میں اساتذہ کو نوکری سے فارغ کیا گیا تھا۔

کچھ طالبات نے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بات کی تھی جو منظر عام پر آنے کے بعد مزید طالبات آگے آئیں اور انہی اساتذہ کے حوالے سے اپنی آپ بیتی سے آگاہ کیا جبکہ دیگر اسکولوں کی طالبات نے بھی اس قسم کی شکایات کیں جس سے ظاہر ہوتا ہے اسکولوں میں ہراسانی کس طرح روز بروز بڑھ رہی ہے۔

جن اساتذہ پر الزامات لگائے گئے ان میں سے ایک کی نجی تصاویر کے اسکرین شاٹس بھی شیئر کیے گئے تھے اور وہ طلبہ کو اسکول مباحثہ اور سیاست پڑھاتے تھے۔

رپورٹس کے مطابق وہ تقریباً 4 برس سے نوجوان لڑکیوں کو اس قسم کی تصاویر اور تحریری پیغامات بھیج رہے تھے اور اسکول کی تقریباً ہر شاخ کی طالبات کی جانب سے ان پر الزام لگایا گیا تھا۔

لاہور کی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی نے نجی اسکول کی کئی طالبات کی جانب سے اساتذہ کے خلاف ہراسانی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی۔

اس کے علاوہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے لاہور کے نجی اسکول میں طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے سی سی پی او لاہور سے رپورٹ طلب کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں