لاہور ہراسانی کیس: طالبات کے مطالبات پیش، اسکول کے مزید 2 عہدیدار معطل

اپ ڈیٹ 03 جولائ 2020
سابق طلبہ نے اسکول میں جنسی ہراسانی کے معاملے پر مکمل اصلاحات کا مطالبہ کیا —تصویر: ڈان آرکائیو
سابق طلبہ نے اسکول میں جنسی ہراسانی کے معاملے پر مکمل اصلاحات کا مطالبہ کیا —تصویر: ڈان آرکائیو

لاہور گرامر اسکول 1 اے1 کے سابق اور موجودہ طلبہ کی جانب سے اسکول ڈائریکٹر کو پیش کردہ چارٹر اور آف ڈیمانڈ کے بعد اسکول عملے کے مزید 2 افراد کو مطل کردیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مزید جن افراد کو معطل کیا گیا ان میں مرکزی ملزمہ مائرہ عمیر رانا اور روبینہ شکیل شامل ہیں جنہیں ہراسانی کی شکایات کو نظِر انداز کرنے پر معطل کیا گیا۔

ڈان میں 30 جون کو شائع ہونے والی خبر کے نتیجے میں مزید طالبات کی جانب سے سوشل میڈیا پر کیمپس میں ہراساں کیے جانے کے الزامات سامنے آئے۔

چارٹر آف ڈیمانڈ رواں ہفتے سوشل میڈیا پر جنسی ہراساں کرنے کے ردِ عمل میں تیار کیا گیا جس میں موجودہ اور سابق طلبہ نے اسکول میں جنسی ہراسانی کے معاملے پر مکمل اصلاحات کا مطالبہ کیا جسے ڈائریکٹر نے قبول کرلیا۔

یہ بھی پڑھیں: نجی اسکولوں کی طالبات کے اساتذہ پر جنسی ہراسانی کے الزامات، وزارت انسانی حقوق کا نوٹس

ایک نمائندے کا کہنا تھا کہ ’مس نگہت علی نے کہا کہ بہت سے مطالبات پہلے ہی اسکول میں نافذ کیے جاچکے ہیں جبکہ دیگر پر بھی وہ رضامند ہیں اور آئندہ آنے والے دنوں میں اس پر بھی جلد عملدرآمد ہوگا‘۔

نمائندے کا مزید کہنا تھا کہ ’مکمل تبدیلی میں آنے میں وقت لگے گا لیکن اسکول نے ہماری شکایات خوش اسلوبی سے سنیں‘۔

قبل ازیں طالبات کو ہراساں کرنے میں ملوث اساتذہ کو معطل کردیا گیا تھا اور مس نگہت علی کی سربراہی میں لاہور گرامر اسکول کے سینئر اراکین اور سابقہ طالبات پر مشتمل ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی جو اس معاملے کو دیکھے گی۔

طلبہ کے مطالبات میں یہ مطالبہ بھی شامل تھا کہ ہراسانی کا شکار طلبہ کے لیے شکایت اور کاؤنسلنگ کا طریقہ کار تشکیل دیا جائے۔

مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب کا نجی اسکول کی طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات کا نوٹس

اس سلسلے میں طالبات نے شکایت کی تفصیل بتانے کے لیے ایک فارم پر کروانے کا مشورہ دیا تا کہ طالبات اپنی رازداری برقرار رکھتے ہوئے والدین کو شامل کیے بغیر خود فارم پر کرسکیں۔

سابق طلبہ کی ایک نمائندہ کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ان سے انسداد ہراسانی پالیسی کو نمایاں جگہوں مثلاً ویب سائٹ وغیرہ پر آویزاں کرنے کا بھی کہا ہے جبکہ تمام اساتذہ اور فیکلٹی اراکین کی بھی تربیت ہونی چاہیے اور اس حوالے سے کتابچے بھی موجود ہونے چاہیے‘۔

دوسری جاب ویمن ایکشن فورم لاہور نے بالآخر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے ہراسانی کے الزامات پر اپنی ’پریشانی‘ کا اظہار کیا اور ساتھ ہی جنسی ہراسانی کی شکایات کرنے والی طالبات کی ہمت اور اعتماد کو سراہا۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر لاہور کے ایک بڑے تعلیمی ادارے لاہور گرامر اسکول کی طالبات کی جانب سے اساتذہ پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات سامنے آئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان یونیورسٹی میں طلبہ کو ہراساں کرنے کے واقعات پر احتجاج

جس کے بعد لاہور کے علاقے غالب مارکیٹ میں قائم ایل جی اسی 1 اے 1 برانچ نے 8 طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور انہیں نازیبا تصاویر بھیجنے کے الزام میں 4 اساتذہ کو نوکری سے فارغ کردیا تھا۔

طالبات کی جانب سے جن اساتذہ پر الزامات لگائے گئے ان میں سے ایک کی نجی تصاویر کے اسکرین شاٹس بھی شیئر کیے گئے تھے اور وہ طلبہ کو اسکول مباحثہ اور سیاست پڑھاتے تھے۔

رپورٹس کے مطابق وہ تقریباً 4 سالوں سے نوجوان لڑکیوں کو اس قسم کی تصاویر اور تحریری پیغامات بھیج رہے اور اسکول کی تقریباً ہر شاخ کی طالبات کی جانب سے ان پر الزامات سامنے آئے۔

سوشل میڈیا پر ایک کے بعد ایک طالبہ کی جانب سے اس قسم کی شکایات موصول ہونے پر وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی اس کا نوٹس لیا تھا۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن ہراسانی کی شکایات میں 189 فیصد اضافہ

دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے سی سی پی او لاہور کو ہراسانی کے واقعات کی غیر جانبدارانہ انکوائری کا حکم دیا تھا۔

اسی طرح لاہور کی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی نے بھی نجی اسکول کی کئی طالبات کی جانب سے اساتذہ کے خلاف ہراسانی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی۔

علاوہ ازیں صوبائی وزیر تعلیم مراد راس نے یقین دہانی کروائی تھی کہ اس کیس کو قانون کے تحت باقاعدہ نتیجے تک پہنچایا جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں