تاجر کے اغوا، قتل کے کیس میں عذیر بلوچ پر فرد جرم عائد

اپ ڈیٹ 08 جولائ 2020
عدالت نے  پروسیکیوشن کے گواہان کو بیان ریکارڈ کرنے کی ہدایت کے ساتھ 27 جولائی کو طلب کرلیا—فائل فوٹو: حسین افضل
عدالت نے پروسیکیوشن کے گواہان کو بیان ریکارڈ کرنے کی ہدایت کے ساتھ 27 جولائی کو طلب کرلیا—فائل فوٹو: حسین افضل

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے تاجر کے اغوا اور قتل کیس میں لیاری کے مشتبہ گینگسٹر عذیر جان بلوچ پر فرد جرم عائد کردی۔

عذیر جان بلوچ کو سخت سیکیورٹی انتظامات کے ساتھ سینٹرل جیل کے جوڈیشل کمپلیکس میں واقع اے ٹی سی میں پیش کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ عذیر بلوچ، جنہیں حال ہی میں ایک فوجی عدالت نے غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جاسوسی کے الزم میں سزا سنائی تھی، اب ان پر اور ان کے ساتھیوں پر جولائی 2009 میں لیاری کے علاقے چاکیواڑہ میں تاجر عبدالصمد کے اغوا برائے تاوان اور بعدازاں قتل کی فرد جرم عائد کردی گئی۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے مبینہ گینگسٹر اور کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ کو فرد جرم پڑھ کر سنائی۔

مزید پڑھیں: عذیر بلوچ کا جاسوسی، 198 افراد کے قتل کا اعتراف، جے آئی ٹی رپورٹ جاری

تاہم عذیر بلوچ نے جرم قبول کرنے سے انکار کیا اور الزامات کے دفاع کا انتخاب کیا۔

بعدازاں عدالت نے پروسیکیوشن کے گواہان کو بیان ریکارڈ کرنے کی ہدایت کے ساتھ 27 جولائی کو طلب کرلیا۔

پروسیکیوشن نے کہا کہ ملزم نے اپنے بھائی زبیر بلوچ اور دیگر کے ہمراہ تربت سے تعلق رکھنے والے تاجر کو 16 جولائی 2009 کو اغوا کیا تھا اور ان کی رہائی کے لیے 10 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا تھا۔

عدالت میں پروسیکیوشن نے مزید کہا کہ مغوی کے اہلخانہ نے اغواکاروں کو 70 ہزار روپے دیے تھے لیکن انہوں نے تاجر کو قتل کردیا تھا۔

تاجر کے والد عظیم خان کی شکایت پر چاکیواڑہ پولیس اسٹیشن میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 302، 365-اے، 34 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ، 1997 کی دفعہ 7 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

رینجرز نے جنوری 2016 میں کراچی کے مضافات میں چھاپے کے دوران عذیر بلوچ کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور پیراملٹری فورس نے عذیر بلوچ کو 90 دن تک تحویل میں رکھا تھا۔

بعدازاں عذیر بلوچ کو تحقیقات کے لیے پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔

ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی ) نے بھی مبینہ گینگسٹر سے تفتیش کی تھی اور عذیر بلوچ نے جے آئی ٹی کے سامنے 198 افراد کے قتل کے اعتراف کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عزیر بلوچ کی فوجی عدالت کی سزا کالعدم قرار دینے کیلئے والدہ کا عدالت سے رجوع

اپریل 2016 میں جوڈیشل مجسٹریٹ نے کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 164 کے تحت عذیر بلوچ کا اعترافی بیان بھی ریکارڈ کیا تھا۔

بعدازاں اپریل 2017 میں ملٹری حکام نے جاسوسی کے الزامات اور غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیز کو حساس معلومات لیک کرنے کے خلاف ٹرائل پر کراچی سینٹرل جیل سے عذیر بلوچ کی کسٹڈی حاصل کرلی تھی۔

اپریل میں فوجی عدالت سے پاکستان آرمی ایکٹ کےسیکشن 59 اور آفیشل سیکریٹس ایکٹ کے سیکشن 3 کے تحت 12 سال قید کی سزا سنائے جانے کے بعد عذیر بلوچ کو اے ٹی سی اور کراچی کی سیشنز کورٹس میں زیر التوا 60 کے قریب مقدمات کے ٹرائل کے لیے دوبار جیل حکام کے حوالے کیا گیا تھا۔

عذیر بلوچ کو پیراملٹری اہلکار، پولیس اہلکاروں، حریفوں اور دیگر افراد کے قتل، اغوا، بھتہ غوری وغیرہ، اور مارچ 2013 میں کچھ پولیس افسران کی مدد سے ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی میں حریف گینگسٹر ارشد پپو، اس کے بھائی یاسر عرفات اور جمعہ شیرا کے اغوا کے بعد تہرے قتل سے متعلق مقدمات کا سامنا ہے۔


یہ خبر 8 جولائی، 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں