عزیر بلوچ کی فوجی عدالت کی سزا کالعدم قرار دینے کیلئے والدہ کا عدالت سے رجوع

اپ ڈیٹ 27 مئ 2020
عزیر بلوچ کو فوج نے جاسوسی کے الزام میں حراست میں لیا تھا—فائل فوٹو: ڈان
عزیر بلوچ کو فوج نے جاسوسی کے الزام میں حراست میں لیا تھا—فائل فوٹو: ڈان

کراچی: لیاری کی بدنام زمانہ شخصیت عزیر جان بلوچ کو فوجی عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کے خلاف ان کے اہل خانہ نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔

عزیر بلوچ کی والدہ رضیہ بیگم کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں اپنے وکیل کے ذریعے درخواست دائر کروائی گئی اور مؤقف اپنایا گیا کہ فوجی عدالت کی جانب سے مبینہ طور پر سزا کے بعد ان کے بیٹے کو اپریل کے پہلے ہفتے میں کراچی جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

درخواست گزار کے مطابق عزیر بلوچ کو جنوری 2016 میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے پکڑا گیا اور ان پر انسداد دہشت گردی عدالت میں زیر التوا 50 سے زائد کیسز میں نامزد اور چارج شیٹ کیا گیا۔

مزید پڑھیں: عزیر بلوچ کو فوج نے 3 سال بعد جیل حکام کے حوالے کردیا

انہوں نے مزید کہا کہ عزیر بلوچ کو 12 اپریل 2017 کو سینٹرل جیل کی جانب سے فوجی حکام کے حوالے کیا گیا تاکہ وہ جاسوسی کی سرگرمیوں اور غیرملکی ایجنسیوں کے لیے کام کرنے میں ملوث ہونے کا مقدمے کے ٹرائم کا سامنا کریں۔

عزیر بلوچ کی والدہ کی جانب سے کہا گیا کہ فوجی عدالت کی سماعتوں کی نقل فراہم کرنے کے لیے فوجی اور جیل حکام کو مختلف درخواستیں بھیجی گئیں، مزید یہ کہ فیصلے اور سماعتوں کے ریکارڈ کی نقل وہاں تھی تاہم اسے درخواست گزار کو فراہم نہیں کی گئی۔

عدالت میں درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ ان کی موکلہ کے بیٹے کو بغیر کسی دائرہ اختیار اور مستند ثبوت کے مجرم قرار دیا گیا اور انہیں منصفانہ ٹرائل اور آئین کے مطابق سزا کے خلاف اپیل کا حق ہے۔

اپنے وکیل کے توسط سے دائر درخواست میں انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ فوجی عدالت کی سزا کو کالعدم قرار دیا جائے اور عسکری حکام کو یہ ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ فیصلے اور سماعت کے ریکارڈ کو سندھ ہائی کورٹ کے سامنے پیش کریں۔

یہ بھی پڑھیں: عزیر بلوچ، نثار مورائی، سانحہ بلدیہ کی جے آئی ٹی رپورٹس منظر عام پر لانے کا حکم

خیال رہے کہ عزیر بلوچ کو پاکستان رینجرز سندھ کی جانب سے ابتدائی طور پر 90 روز کی حفاظتی تحویل میں لیا گیا تھا اور پھر جنوری 2016 میں ان کی پراسرار گرفتاری کے بعد انہیں پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔

جس کے بعد اپریل 2017 میں فوج نے اعلان کیا کہ 'جاسوسی' کے الزامات پر انہوں نے عزیر بلوچ کی حراست میں لے لیا۔

یاد رہے کہ عزیر بلوچ انسداد دہشت گردی اور سیشن عدالتوں میں اپنے حریف ارشد پپو کے بہیمانہ قتل سمیت 50 سے زائد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔


یہ خبر 27 مئی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں