کراچی: لوڈ شیڈنگ، بجلی کی طویل بندش کے باعث جنریٹرز کی فروخت میں اضافہ

اپ ڈیٹ 11 جولائ 2020
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی کے باوجود رواں برس اب تک جنریٹرز کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوا
—فائل فوٹو: اے ایف پی
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی کے باوجود رواں برس اب تک جنریٹرز کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوا —فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی: گزشتہ کئی روز سے رہائشی علاقوں میں کے-الیکٹرک کی جانب سے طویل لوڈشیڈنگ اور بڑھتے درجہ حرارت کے باعث شہر میں جنریٹرز کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔

ڈیلرز کا کہنا ہے کہ لوگ جنریٹرز خرید رہے ہیں کیونکہ ان کے عزیز کورونا وائرس کا شکار ہونے کے باعث گھروں میں آئسولیشن میں ہیں اور وہ بجلی کے بغیر گھر میں رہنے کے متحمل نہیں ہیں۔

جنریٹر کمپنی کے مالک سکندر شہزادہ نے کہا کہ وہ گزشتہ 2 ہفتے کے سے 2 سے 4 یونٹس کے مقابلے میں ان دنوں یومیہ 30 سے 40 پورٹیبل جنریٹرز بیچ رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی رہنماؤں کا وفاق سے کراچی میں ایک اور بجلی کی تقسیم کار کمپنی لانے کا مطالبہ

انہوں نے بجلی کی فراہمی میں بہتری اور جنریٹرز کی بہت زیادہ قیمتوں کی وجہ سے گزشتہ سال کے اسی عرصے میں کم فروخت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گرمی کی حالیہ لہر نے بہت سے لوگوں کو ایک کے وی اے (kVA) کا جنریٹر خریدنے پر مجبور کردیا ہے تاکہ وہ کم از کم پنکھے اور ایل ای ڈی بلبز ہی روشن کرسکیں چاہے اس کے لیے انہیں ادھار لینا پڑا ہو۔

سکندر شہزادہ نے کہا کہ وقتاً فوقتاً اور طویل لوڈشیڈنگ ان لوگوں کے لیے زیادہ خطرناک ہے جن کے پاس جنریٹرز خریدنے کے لیے پیسے نہیں اور وہ گھر پر کورونا وائرس کے مریضوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔

روپے کی قدر میں کمی کے باوجود مستحکم قیمتیں

انہوں نے کہا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی کے باوجود رواں برس میں اب تک جنریٹرز کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوا۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ دکانداروں کے پاس گزشتہ برس کے پرانے اسٹاکس موجود ہیں اور وہ اسے کسی بھی قیمت پر ختم کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لوڈشیڈنگ اور ہیٹ ویو گزشتہ برس نہ بکنے والے اسٹاکس کلیئر کرنے میں تاجروں کے لیے نعمت ثابت ہو رہی ہیں۔

شہزادہ سکندر نے کہا کہ کراچی کے مقابلے میں پنجاب میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اب تک قابو میں ہے جبکہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کو بھی بجلی کی کمی کا سامنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بجلی کی طلب کو پورا کرنے کیلئے فرنس آئل کی درآمد پر پابندی ختم

انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے لوگ سولر پینلز کی طرف جارہے ہیں جبکہ ان کی تنصیب کی لاگت زیادہ ہے۔

پاکستان مشینری مرچنٹس گروپ کے صدر خرم سہگل نے کہا کہ بجلی پیدا کرنے والی مشینوں کی خریداری کی سرگرمیاں تیزی سے بحال ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ سرگرمی گزشتہ برس سست رہی تھی اور دکاندار گزشتہ برس کے اسٹاکس سے متعلق پریشان تھے۔

خرم سہگل نے کہا کہ بجلی معطل ہونے اور درجہ حرارت میں اضافے سے قبل 2 سے 3 جنریٹر کی فروخت کے مقابلے میں گزشتہ ایک ہفتے میں دکاندار یومیہ اوسط 10 یونٹس بیچ رہے ہیں۔

انہوں نے یہ تصدیق بھی کی کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور زیادہ درآمدی لاگت کے باوجود گزشتہ برس سے جنریٹرز کی قیمتیں تبدیل نہیں کی گئیں۔

مزید پڑھیں: شدید گرمی میں غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ سے پریشان شہری کے الیکٹرک کے خلاف سراپا احتجاج

خرم سہگل نے کہا کہ بہت سے صارفین ایسے ہیں جو بڑھتے ہوئے اخراجات کے باعث جنریٹر نہیں خرید سکتے خاص طور پر جب وہ گھر میں کورونا وائرس کے مریضوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں جنہیں کسی سنگین صورتحال سے بچنے کے لیے بجلی کی بلاتعطل سپلائی کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اکثر لوگ چینی برانڈ کا ایک کے وی اے کا جنریٹر 18 سے 24 ہزار روپے اور 2.5 کے وی اے کے 35 سے 45 ہزار روپے میں خرید رہے ہیں، کچھ لوگ ایئر کنڈیشنرز چلانے کے لیے 6 کے وی اے کے جنریٹرز بھی خرید رہے ہیں۔

علاوہ ازیں شماریات بیورو سے جاری اعداد و شمار کے مطابق جولائی سے مئی 2019 میں پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والی مشینوں کی مجموعی درآمد 7.6 فیصد کمی کے بعد ایک ارب 9 کروڑ 70 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔


یہ خبر 11 جولائی، 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں