احسان اللہ احسان کہاں ہے؟ پیپلز پارٹی نے حکومت سے جواب مانگ لیا

اپ ڈیٹ 18 جولائ 2020
احسان اللہ احسان مبینہ طور پر رواں سال کے اوائل میں حراست سے فرار ہو گئے تھے— فائل فوٹو: اسکرین شاٹ
احسان اللہ احسان مبینہ طور پر رواں سال کے اوائل میں حراست سے فرار ہو گئے تھے— فائل فوٹو: اسکرین شاٹ

اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی) نے مبینہ طور پر فرار ہونے والے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے بارے میں حکومت سے جواب مانگ لیا۔

سینٹ میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر شیری رحمٰن نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 'وہ کسی کی گرفت میں کیوں نہیں ہے؟'

مزید پڑھیں: احسان اللہ احسان کے 'فرار' کا معاملہ: شہدا اے پی ایس کے لواحقین کا چیف جسٹس سے رجوع

واضح رہے کہ اپریل 2017 میں فوج نے اعلان کیا تھا کہ احسان اللہ احسان نے خود کو سیکیورٹی فورسز کے حوالے کردیا ہے لیکن اس کی گرفتاری سے متعلق حالات یا صورتحال کے بارے میں بہت کم تفصیلات پیش کی گئی تھیں۔

بعدازاں اسی ماہ ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان نے ٹیلیویژن پر اپنے جرائم کا اعتراف بھی کیا تھا۔

تاہم احسان اللہ احسان مبینہ طور پر رواں سال کے اوائل میں حراست سے فرار ہو گئے تھے، 6 فروری کو جاری ایک آڈیو پیغام میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے 'ایک معاہدے کے تحت' حکام کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے لیکن ''پاکستان کے غدار اداروں نے انہیں ان کے بچوں سمیت قید کردیا تھا جس کے بعد وہ فرار ہوگئے''۔

شیری رحمٰن نے حکومت سے پورے واقعے کی تفصیلات بتانے کا مطالبہ کیا اور یہ بھی پوچھا کہ احسان اللہ احسان کو کس نے آزاد کرایا۔

یہ بھی پڑھیں: شہدائے اے پی ایس کے لواحقین کا احسان اللہ احسان کے 'فرار' کی وضاحت کا مطالبہ

انہوں نے نشاندہی کی کہ "یہ وہی شخص تھا جس نے (تحریک طالبان پاکستان کی طرف) سے پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں قتل عام کی ذمہ داری قبول کی تھی''۔

اس موقع پر انہوں نے احسان اللہ احسان کی ایک ٹوئٹ کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی اپنی والدہ کی طرح انجام کو پہنچیں گے، اس پر سینیٹر نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کو کوئی نقصان پہنچا تو وزیراعظم عمران خان اس کے ذمہ دار ہوں گے۔

ساتھ ہی انہوں نے وزیر اعظم کی جانب سے "اسامہ بن لادن جیسے دہشت گرد کو شہید" قرار دینے پر بھی تنقید کی۔

اسی دوران ایک وزیر نے ایوان کو بتایا کہ حکومت نے سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر کو 60 سے کم کرکے 55 سال کرنے اور ان کے پنشن فوائد کو ختم کرنے کے بارے میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

تاہم توجہ دلاؤ نوٹس کے جواب میں پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان نے ریٹائرمنٹ کی عمر میں ہونے والی تبدیلیوں سے متعلق اطلاعات کو "گمراہ کن اور بے بنیاد" قرار دیا۔

مزید پڑھیں: سینیٹ کمیٹی نے احسان اللہ احسان کے 'فرار' ہونے پر رپورٹ طلب کرلی

انہوں نے ایوان کو بتایا کہ آج تک حکومت نے سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں کمی کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں لیا اور اس سلسلے میں کوئی تجویز موصول نہیں ہوئی۔

وزیر نے وضاحت کی کہ سول سرونٹس ایکٹ 1973 میں سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر اور پنشن فوائد سے متعلق معاملات ہیں اور کابینہ ڈویژن کے مطابق اس میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کو پارلیمنٹ کے ایک نئے ایکٹ کی ضرورت ہوگی۔

علی محمد خان نے کہا گزشتہ 5 دہائیوں میں آنے والی حکومتوں نے سول سروس کو مضبوط نہیں کیا، تاہم موجودہ حکومت صرف اس میں اصلاحات لانے کی کوشش کر رہی ہے، ہم سرکاری ملازمین کو سہولت فراہم کریں گے لیکن اسی کے ساتھ ان سے مؤثر انداز میں کام کرنے کو کہا جائے گا۔

قبل ازیں اپنے توجہ دلاؤ نوٹس پر بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمن سینیٹر عبدالرحمٰن ملک نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں کمی سے متعلق اطلاعات پر کافی بے چینی ہے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ہدایت پر کام کر رہی ہے جس نے شاید سرکاری ملازمین کی تعداد کم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

سینیٹر رحمٰن ملک نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ غریب ملازمین کے خلاف "غیرجانبدارانہ اقدامات" کرنے سے گریز کرے جنہیں اپنی پینشن اسکیموں سے بڑی توقعات وابستہ ہیں۔

ساتھ ہی پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ملک آئی ایم ایف کے اثر سے باہر آجائے۔

علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہداللہ خان کی جانب سے دیے گئے ایک تنقیدی بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور نے کہا کہ نہ تو موجودہ حکومت پاک چین اقتصادی راہداری(سی پیک) منصوبے کو لپیٹ رہی ہے اور نہ ہی بھارتی فضائیہ کے پائلٹ ابھی نندن وردھامن کو امریکا کے دباؤ پر حوالے کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ اے پی ایس: متاثرین کی حکام کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی درخواست

علی محمد خان نے کہا کہ بھارتی فضائیہ کے پائلٹ کی رہائی پر ان کیمرہ بریفنگ دی گئی جس میں شہباز شریف اور آصف علی زرداری سمیت سیاسی جماعتوں کی پوری قیادت نے شرکت کی، ساتھ ہی وہ بولے کہ حزب اختلاف کے رہنماؤں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ ایک اچھا اقدام ہے، انہوں نے مزید کہا کہ بند کمرہ اجلاسوں کے دوران حزب اختلاف کا مؤقف اکثر ان کی عوامی پوزیشن سے مختلف رہتا تھا۔

یاد رہے کہ مشاہد اللہ خان نے کہا تھا کہ بھارتی پائلٹ کو امریکا کے دباؤ کی وجہ سے رہا کیا گیا تھا اور دعویٰ کیا کہ ایک اسرائیلی پائلٹ کو بھارتی افسر کے ساتھ چھوڑ دیا گیا۔

سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر نے کہا کہ چین کی جانب سے ایرانی منصوبوں میں 400ارب کی سرمایہ کاری کے فیصلے نے یہ واضح کردیا کہ موجودہ حکومت سی پیک پر کچھ نہیں کررہی ہے۔


یہ خبر 18جولائی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں