سانحہ اے پی ایس: متاثرین کی حکام کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی درخواست

اپ ڈیٹ 11 فروری 2020
6 فروری کو ٹی ٹی پی ترجمان نے بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ سیکیورٹی فورسز کی حراست سے فرار ہوچکے ہیں — فائل فوٹو:رائٹرز
6 فروری کو ٹی ٹی پی ترجمان نے بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ سیکیورٹی فورسز کی حراست سے فرار ہوچکے ہیں — فائل فوٹو:رائٹرز

پشاور: 2014 میں آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) سانحے میں شہید ہونے والے طالب علم کے والد نے پشاور ہائی کورٹ میں ریاستی اداروں کے خلاف عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کرنے کی درخواست دائر کردی۔

درخواست گزار ایڈووکیٹ فضل خان نے توہین عدالت کی درخواست دائر کرتے ہوئے کہا کہ فریقین نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ترجمان احسان اللہ احسان کو مبینہ طور پر رہا کرنے کے منصوبے کے خلاف دائر کی گئی گزشتہ درخواست پر انہیں دیے گئے احکامات کی خلاف ورزی کی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق توہین عدالت کی درخواست میں سینئر حکومتی اور سیکیورٹی عہدیداروں کو فریق بنایا گیا ہے۔

خیال رہے کہ 6 فروری کو احسان اللہ احسان کا مبینہ آڈیو پیغام سوشل میڈیا پر سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ سیکیورٹی فورسز کی حراست سے فرار ہوچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: سانحہ اے پی ایس کو 5 سال، لواحقین کے غم آج بھی تازہ

ٹی ٹی پی ترجمان کا گرفتاری دینے سے قبل تحریک طالبان پاکستان کی ذیلی تنظیم جماعت الاحرار سے تعلق تھا۔

25 اپریل 2018 کو ہائی کورٹ کے بینچ نے فضل خان کی گزشتہ درخواست کی سماعت کے دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل مسرت اللہ خان کی عدالت کو یقین دہانی کے بعد اسے نمٹا دیا تھا۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ حکومت کا احسان اللہ احسان کو رہا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، وہ ابھی تفتیش کاروں کے پاس ہیں اور ان کا فوجی عدالت میں ٹرائل کیا جائے گا۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ان کے بڑے بیٹے صاحبزادہ عمر خان اے پی ایس کے ان 148 طالب علموں اور اساتذہ میں سے تھے جو 16 دسمبر 2014 کو دہشت گردوں کے حملے میں جاں بحق ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس وقت سے وہ صوبے کے سب سے تاریک دن میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کوششیں کر رہے ہیں تاکہ کسی اور بچے کے والدین کو اس طرح کی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے'۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ٹی ٹی پی نے حملے کے اگلے ہی روز اس کی ذمہ داری قبول کرلی تھی اور حملے کے تقریباً 3 سال بعد مرکزی ملزم احسان اللہ احسان نے گرفتاری دی یا انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گرفتار کیا جس کے بعد انہیں کچھ امید ملی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ اے پی ایس: 144 افراد اور زندہ یادیں

فضل خان نے بتایا کہ انہوں نے اس وقت پٹیشن دائر کی تھی جس پر فریقین نے بیان دیا تھا کہ دہشت گرد احسان اللہ احسان کا فوجی عدالت میں ٹرائل ہوگا اور ان پر رحم نہیں کیا جائے گا۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کو احکامات جاری کیے گئے کافی وقت گزر چکا ہے تاہم بدقسمتی سے فریقین نے اپنی نا اہلی سے احکامات پر عمل در آمد نہیں کیا جس کی وجہ سے یہ درخواست دائر کی گئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں