لاہور کی انسداد دہشت گری عدالت نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کا الزام ثابت ہونے پر 2 مجرمان کو قید اور جرمانے کی سزا سنادیا۔

انسداد دہشت گردی عدالت کے جج اعجاز احمد بٹر نے سماعت مکمل ہونے پر فیصلے میں ملزمان لقمان شاہ اور مسعود الرحمٰن کو 16،16 سال قید اور فی کس ڈیڑھ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنادی۔

مجرمان کے خلاف تھانہ سی ٹی ڈی نے دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا اور ان پر دہشت گردوں کی مالی معاونت کا الزام تھا۔

مزید پڑھیں:کورونا وائرس: پاکستان کو ایف اے ٹی ایف سے 5 ماہ کا اضافی وقت مل گیا

ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل پنجاب عبدالجبار ڈوگر نے ملزمان کے خلاف دلائل مکمل کیے اور ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کیا۔

خیال رہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت میں ملزمان کے خلاف مقدمے کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوئی اور فیصلہ سنادیا گیا۔

یاد رہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے پلانری گروپ نے انسداد منی لانڈرنگ/دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے عمل میں پائی گئی ’اسٹریٹجک خامیوں‘ کی بنا پر جون 2018 میں پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا تھا۔

فروری 2019 میں میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ وہ اپنے وعدوں کا پاس رکھتے ہوئے دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ جیسے جرائم میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے۔

عالمی سطح پر لگنے والی پابندی کے خطرے کے پیش نظر حکومتی مشینری فوری طور پر حرکت میں آ گئی تھی تاکہ 2 ماہ کے اندر اندر اچھے نتائج دکھائے جاسکیں۔

پاکستان نے بھارت کے الزامات کو مدنظر رکھتے ہوئے جماعت الدعوۃ اور اس کی ذیلی تنظیم فلاح انسانیت فاؤنڈیشن پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کردیا تھا، پڑوسی ملک نے الزامات عائد کیے تھے کہ پاکستان جماعت الدعوۃ اور جیش محمد سمیت ان جیسی 6 تنظیموں کو سپورٹ کرتا ہے یا انہیں کم خطرے کی حامل تنظیمیں تصور کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:حافظ سعید کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کے 2 مقدمات میں 11 سال قید

قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جماعت الدعوۃ، فلاح انسانیت فاؤنڈیشن، جیش محمد و دیگر کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیاں تیز کرتے ہوئے ان کے 100 سے زائد کارکنوں کو گرفتار کر لیا تھا، اس کے علاوہ ان کالعدم تنظیموں سے منسلک 200 سے زائد مدرسے، سیکڑوں دیگر املاک اور اثاثے حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیے تھے۔

اکتوبر 2019 میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو رواں برس فروری تک گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے 27 نکاتی ایکشن پلان پر عملدرآمد کی مہلت دی تھی۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے مکمل خاتمے کے لیے اسلام آباد کو مزید اقدامات لینے کی ہدایت کی تھی جبکہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خطرات کے حل میں کارکردگی کی کمی پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا۔

بعد ازاں فروری میں پیرس میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو 4 ماہ کی مہلت دی تھی تاکہ وہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کیلئے مالی معاونت کے خلاف اپنے 27 نکاتی ایکشن پلان کو مکمل کرسکے۔

اس موقع پر یہ وضاحت پیش کی گی تھی کہ پاکستان نے ایکشن پلان کے 14 نکات پر کام کیا لیکن 13 دیگر اہداف سے متعلق قابل ذکر اقدامات نہیں اٹھائے۔

ایف اے ٹی ایف نے 21 فروری کو یہ کہا تھا کہ پاکستان کو 27 نکاتی ایکشن پلان کو مکمل کرنے کے لیے دی گئی تمام ڈیڈ لائن ختم ہوچکی ہیں اور صرف 14 نکات پر بڑے پیمانے پر مکمل عمل ہوسکا جبکہ 13 اہداف چھوڑ دیئے گئے تھے۔

مزید پڑھیں:دہشتگردی کی مالی معاونت کے کیس میں جماعت الدعوۃ کے 4 رہنماؤں کو سزا

ایف اے ٹی ایف نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ تیزی سے اپنے پورے ایکشن پلان کو جون 2020 تک مکمل کرے ورنہ اسے نگرانی کے دائرہ اختیار کی فہرست میں شامل کردیا جائے گا جسے عام طور پر واچ ڈاگ کی بلیک لسٹ کہا جاتا ہے۔

اپریل میں ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کیلئے مالی معاونت کے خلاف 13 فول پروف انتظامات سے متعلق رپورٹ جمع کرانے میں 5 ماہ کا اضافی وقت مل گیا۔

ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے ڈان کو بتایا تھا کہ ہمیں اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے ذریعے ایف اے ٹی ایف سے حالیہ اقدام کے بارے میں اطلاع ملی کہ ان کا بیجنگ میں 21 سے 26 جون کو ہونے والا جائزہ ملتوی کردیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے اب اکتوبر میں ملک کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔

عہدیدار نے بتایا تھا کہ اس سے قبل پاکستان کو 20 اپریل تک کارکردگی رپورٹ پیش کرنا تھی لیکن اب ہم اگست میں اپنی رپورٹ ایف اے ٹی ایف کو بھیجیں گے جس کا اکتوبر میں جائزہ لیا جائے گا۔

انہوں نے کہا تھا کہ التوا بظاہر کورونا وائرس سے متعلق غیر یقینی حالات کی وجہ سے ہوا ہے لیکن حالات نے پاکستان کو اپنی کمی دور کرنے کے لیے اضافی وقت مہیا کردیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں