چین، ایغور سے متعلق انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کررہا ہے، برطانیہ

اپ ڈیٹ 19 جولائ 2020
ماہرین کے مطابق سنکیانگ میں 10 لاکھ سے زائد ایغور اور ترک مسلمان نظر بند ہیں—فائل/فوٹو:اے ایف پی
ماہرین کے مطابق سنکیانگ میں 10 لاکھ سے زائد ایغور اور ترک مسلمان نظر بند ہیں—فائل/فوٹو:اے ایف پی

برطانیہ نے کہا ہے کہ چین مغربی خطے سنکیانگ میں شدید مشکلات کے شکار ایغور مسلمانوں اور مذہبی اقلیتوں سے متعلق انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہورہا ہے۔

خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈومینک راب کا کہنا تھا کہ مسلم اکثریتی خطے میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور ظلم پر عالمی توجہ کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: ایغور مسلمانوں کا معاملہ، امریکا نے چینی عہدیداروں پر پابندیاں عائد کردیں

انسانی حقوق اور ماہرین کے اندازے کے مطابق 10 لاکھ سے زائد ایغور اور ترک مسلمان نظر بندی کیمپوں میں موجود ہیں۔

برطانوی وزیر خارجہ نے کہا کہ 'یہ واضح ہے کہ وہاں وسیع اور سنگین پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، جو انتہائی دردناک ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'موصول ہونے والی رپورٹس اور اس کے انسانی اثرات ہمیں یاد دلارہے ہیں جو ہم نے طویل عرصے سے نہیں دیکھا اور یہ سب کچھ عالمی برادری کے ایک نمایاں رکن کی جانب سے کی جارہی ہیں اور اس کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے'۔

ڈومینک راب کا کہنا تھا کہ 'ہم چین کے ساتھ مثبت تعلقات چاہتے ہیں لیکن ہم اس طرح کا رویہ نہیں دیکھ سکتے اور اس پر آواز اٹھائے بغیر بھی نہیں رہ سکتے'۔

خیال رہے کہ برطانیہ اور چین کے درمیان مختلف معاملات پر اختلافات ہیں اور ایک ایسے وقت میں ہی وزیر خارجہ کا بیان سامنے آیا ہے۔

برطانیہ نے امریکی دباؤ پر ہواوے کا 5 جی نیٹ ورک معطل کردیا تھا جبکہ چین نے اس پر ردعمل دینے کے حوالے سے خبردار کیا تھا۔

دونوں ممالک ہانگ کانگ کے معاملے پر بھی ایک دوسرے کو خبردار کرتے رہے ہیں اور متنازع قانون پر برطانیہ کے اعلانات پر چین نے مداخلت سے باز رہنے کی تلقین کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:سنکیانگ کے معاملے پر تنقید، چین نے امریکی قانون دانوں پر پابندیاں عائد کردیں

ڈومینک راب نے کہا کہ برطانوی قانون سازوں کو ہانگ کانگ میں چین کے انسانیت سوز قوانین سے متعلق حکومت کے اگلے فیصلے سے آگاہ کروں گا۔

دوسری جانب برطانیہ میں چین کے سفیر نے خبردار کیا کہ اگر برطانیہ نے چینی عہدیداروں پر الزامات کی بنیاد پر پانبدیوں کے حوالے سے امریکا کی پیروی کی تو مؤثر جواب دیا جائے گا۔

لیو شیاؤمنگ کا کہنا تھا کہ 'ہم یک طرفہ پابندیوں پر یقین نہیں رکھتے، ہمارا ماننا ہے کہ اقوام متحدہ کے پاس پابندیاں عائد کرنے کی اتھارٹی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'اگر برطانوی حکومت نے چین میں کسی بھی عہدیدار پر پابندی لگانے کی کوشش کی تو پھر چین بالکل اسی طرح جواب دے گا'۔

چینی سفیر کاکہنا تھا کہ 'میں برطانیہ اور چین کے درمیان سفارتی سطح پر بیان بازی نہیں کرنا چاہتا، جس طرح امریکا کے ساتھ ہوا'۔

لیو شیاؤمنگ نے کہا کہ 'میرے خیال میں برطانیہ کو اپنی آزاد خارجہ پالیسی پر عمل کرنا چاہیے نہ کہ امریکیوں کی سر پر ناچیں، جس طرح انہوں نے ہواوے کے معاملے پر کیا تھا'۔

خیال رہے کہ امریکا نے رواں ماہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر سنکیانگ میں کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ چین کینگو سمیت متعدد چینی حکام کے ویزا پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ اثاثے بھی منجمد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

مزید پڑھیں:برطانیہ کا 5 جی نیٹ ورکس سے ہواوے کو نکالنے پر غور

امریکا سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ امریکا مغربی خطے میں جبری مشقت، اجتماعی نظربندی اور غیر رضاکارانہ بنیادوں پر آبادی پر قابو پانے جیسے ہتھکنڈوں سمیت تمام خوفناک اور منظم زیادتیاں کرنے والوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔

چین نے ان الزامات کو مسترد کردیا گیا تھا لیکن ایغور مسلمانوں کو ووکیشل ایجوکیشنل سینٹرز بھیجنے کا اعتراف کیا گیا تھا جس کا مقصد انہیں مینڈیرن زبان اور کوئی ہنر سکھانا ہے تاکہ خطے میں ہونے والے پرتشدد واقعات کے بعد جنم لینے والی عیحدگی پسندی کی لہر سے انہیں دور کیا جا سکے۔

وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چونئنگ نے کہا تھا کہ مجھے یہ بتانا ہوگا کہ سنکیانگ کا معاملہ خالصتاً چین کا داخلی معاملہ ہے اور اس میں امریکا کا مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ چین تشدد اور دہشت گردی کی قوتوں، علیحدگی پسند قوتوں اور مذہبی انتہا پسند طاقتوں سے لڑنے کے لیے پرعزم ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں