ٹیسٹنگ، کورونا کیسز میں کمی کا اندازہ لگانے کا واحد طریقہ نہیں، ڈاکٹر ظفر مرزا

اپ ڈیٹ 20 جولائ 2020
ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ ہر چیز کو ٹیسٹ کی تعداد پر نہیں ڈالنا چاہیئے3فائل فوٹو: ڈان نیوز
ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ ہر چیز کو ٹیسٹ کی تعداد پر نہیں ڈالنا چاہیئے3فائل فوٹو: ڈان نیوز

وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا ہے کہ جب تمام رجحانات پاکستان میں نوول کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں کمی ظاہر کررہے ہیں تو ہر چیز کو ملک میں کیے جانے والے ٹیسٹس کی تعداد میں کمی سے نہیں دیکھنا چاہیے۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’میرا خیال ہے کہ ہر چیز کو ٹیسٹ کی تعداد پر نہیں ڈالنا چاہیے، ہم جون کے وسط میں وبا کے عروج سے گزر چکے، ٹیسٹنگ بھی ایک عنصر ہے لیکن یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ مشتبہ کیسز کی تعداد کم ہوئی ہے'۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ ‘ہم نے ہسپتالوں سے معلومات اکٹھی کیں اور سندھ کے چند ہسپتالوں کے سوا اکثریت نے بتایا کہ ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی کے ضلع جنوبی میں کورونا وائرس کیلئے گھر گھر ٹیسٹنگ معطل

خیال رہے کہ 20 جون سے اب تک 2200 مریضوں کے انتقال کے باوجود اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو روزانہ کیے جانے والے ٹیسٹس کی تعداد کم کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

حکومت نے گزشتہ ماہ روزانہ کیے جانے والے ٹیسٹس کی تعداد بڑھا کر 34 ہزار تک کردی تھی لیکن جون کے آخر سے ٹیسٹس کی تعداد میں اچانک کمی ہونا شروع ہوگئی اور 18 جولائی کو ملک بھر میں تقریباً 18 ہزار ٹیسٹ کے گئے۔

معاون خصوصی برائے صحت کا مزید کہنا تھا کہ اس بات میں شبہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وائرس کا پھیلاؤ کم ہوا ہے اور تمام اشاریے مثلاً ہسپتالوں میں داخل مریضوں کی تعداد اور آکسیجن بیڈز اور وینٹیلیٹرز پر موجود بیماروں کی تعداد کم ہوئی ہے جبکہ اموات میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: پنجاب میں کسی وضاحت کے بغیر کورونا وائرس ٹیسٹنگ کی تعداد میں کمی

انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ اس بات کا جائزہ لینے کے لیے بات چیت جاری ہے کہ آیا یہ ’قبل از وقت امید‘ ہے یا کیسز کی تعداد میں ’مستقل کمی‘ ہے۔

معاون خصوصی نے کہا کہ گزشتہ ہفتے ہم نے غور کیا کہ ٹیسٹ کی تعداد کم کیوں ہوئی کیوں کہ ٹیسٹ کی صلاحیت میں کوئی مسئلہ نہیں ہے جس پر یہ جواب موصول ہوا کہ ہسپتالوں اور نجی لیبارٹریز میں مشتبہ مریضوں کی تعداد کم ہوگئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حالانکہ ہمارا اتفاق رائے ہے کہ ٹیسٹس کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے لیکن یہ بات بھی دیکھی گئی کہ 40 سے 50 فیصد ٹیسٹس ٹریسنگ، ٹیسٹنگ اور قرنطینہ کی پالیسی کی تحت کیے جارہے ہیں اور اگر ٹی ٹی کیو پالیسی نہ ہوتی تو ٹیسٹ کی تعداد مزید کم ہوتی۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کے مریض ایک سے زیادہ بار اس کا شکار ہوسکتے ہیں، تحقیق

معاون خصوصی نے کہا کہ پاکستان میں صورتحال کے گرد 9 عناصر کا مجموعہ ہے، ’ہم نے بہت پہلے 13 مارچ کو لاک ڈاؤن کردیا تھا جو اب بھی جاری ہے جیسا کہ ریسٹورنٹس، شادی ہالز، تعلیمی ادارے اور دیگر مقامات بند ہیں۔

ڈاکٹر ظفر مرزا کے مطابق جو شعبے کھولے گئے ان کی نگرانی کی جارہی ہے اور ہدایات کی خلاف ورزی پر جرمانے کیے جاتے ہیں مزید یہ کہ 24 اپریل کو متعارف کروائی گئی ٹی ٹی کیو پالیسی(مریض کے رابطے میں رہنے والے افراد کی ٹیسٹنگ) بہتر ہوئی ہے اور چونکہ ہم حفظان صحت پر توجہ دے رہے ہیں اس لیے ماسکس پہننا لازم کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قوت مدافعت کی سطح، وائرس کی نوعیت میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ درجہ حرارت بھی کیسز کی تعداد میں کمی کی وجوہات میں شامل ہے لیکن اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ مریضوں کا انتظام بہتر ہوا ہے۔

مزید پڑھیں: کورونا کیسز میں 40 فیصد کمی، 50 فیصد افراد وائرس سے صحتیاب ہوگئے

دوسری جانب ڈان سے بات کرتے ہوئے وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ کووِڈ 19 کیسز میں کمی آرہی ہے تاہم عوام کی جانب سے خریداری میں احتیاط نہ کرنے کی وجہ سے عیدالاضحیٰ کے موقع پر یہ دوبارہ پھیل سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے عید کی نماز کی فکر نہیں ہے کیوں کہ لوگ نماز پڑھتے ہوئے ایس او پیز پر عمل کرتے ہیں، مجھے ڈر ہے کہ عوام مویشی منڈیوں اور دیگر مارکیٹس میں شاپنگ کے وقت ایس او پیز پر عمل نہیں کریں گے جیسا انہوں نے عیدالفطر پر کیا تھا۔

اسد عمر نے کہا کہ وہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اجتماعی قربانی کی تجویز دیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں