اس وقت سو سے زائد کورونا وائرس ویکسینز کی تیاری پر کام ہورہا ہے مگر ان میں سے ایک ایسی ہے جس نے عالمی ادارہ صحت اور مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس کی توجہ حاصل کی ہے۔

برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے تحت تیار ہونے والے کووڈ 19 ویکسین کی انسانوں پر آزمائش اپریل میں شروع ہوئی تھی۔

اب 3 ماہ بعد اس کے ابتدائی ٹرائل کے نتائج جاری کیے گئے ہیں جن کے مطابق یہ ویکسین کورونا وائرس کے خلاف مضبوط مدافعتی ردعمل پیدا کرتی ہے۔

طبی جریدے دی لانسیٹ میں شائع نتائج میں برطانوی ماہرین نے اپنی تجرباتی ویکسین چاڈ آکس 1 این کوو 19 کے بارے میں بتایا کہ یہ کورونا وائرس کے جینیاتی مواد اور چیمپنزی میں بیماری کا باعث بننے والے ایڈینو وائرس کے امتزاج سے تیار کی گئی ہے۔

اس ویکسین کی انسانی آزمائش کے پہلے مرحلے میں ایک ہزارسے زائد افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

محققین نے بتایا کہ یہ ویکسین وائرس سے لڑنے والے اینٹی باڈیز اور ٹی سیلز کو بنانے میں مدد دیتی ہے۔

ان اینٹی باڈیز کے بارے میں سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ وائرس سے تحفظ کے لیے بہت اہم ہے اور ویکسین کے استعمال کے 28 دنوں کے بعد رضاکاروں میں انہیں دیکھا گیا۔

ویکسین کے کوئی سنجیدہ مضر اثرات دیکھنے یں نہیں آئے اور محققین کے مطابق تھکاوٹ اور سردرد سب سے سائیڈ ایفیکٹس تھے جبکہ دیگر میں انجیکشن کی جگہ پر تکلیف، ملسز میں تکلیف، ٹھنڈ لگنا اور بخار شامل ہیں۔

اس ویکسین کو تیار کرنے والے آکسفورڈ یونیورسٹی کے جینر انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر ایڈریان ہل نے سی این بی سی کو اس حوالے سے بتایا کہ مضبوط مدافعتی ردعمل کا مطلب ہے کہ ویکسین اس وائرس سے تحفظ فراہم کرسکے گی، مگر فی الحال ضمانت دینا ممکن نہیں۔

انہوں نے کہا 'ہم نے ویکسین کی سنگل اور 2 ڈوز استعمال کیں، جس کے بعد یہ دیکھنے میں آیا کہ دونوں طریقوں سے یہ ویکسین مدافعتی ردعمل کے لیے مددگار ہے، تاہم 2 ڈوز میں ہم نے زیادہ مضبوط مدافعتی ردعمل دیکھا۔ اب ان رضاکاروں کی مانیٹرنگ کے ساتھ کہیں اور ٹرائلز شروع کیے جائیں گے'۔

رواں ماہ کے شروع میں آکسفورڈ کی ویکسینلوجی کی پروفیسر سارہ گلبرٹ نے بتایا کہ ویکسین کی انسانی آزمائش کے تیسرے مرحلے کے لیے 8 ہزار رضاکاروں کی خدمات حاصل کی جاچکی ہیں۔

انہوں نے کہا 'ہم بہت خوش ہیں کہ ہم نے کووڈ 19 سے تحفظ کے لیے بہترین مدافعتی ردعمل کو دیکھا، نقصان دہ کو نہیں'۔

اس ویکسین کی انسانی آزمائش کے تیسرے مرحلے میں دیکھا جائے گا کہ 18 سال سے زائد عمر کے متعدد افراد پر ویکسین کس طرح کام کرتی ہے اور کس حد تک لوگوں کو کووڈ 19 سے بچانے میں مددگار ہے۔

کووڈ 19 ویکسین کی تیاری کا عمل دنیا بھر میں تیز ہوچکا ہے کیونکہ ایسے خدشات سامنے آرہے ہیں کہ رواں سال کے آخر میں موسم سرما کے دوران وائرس کی دوسری لہر ابھر سکتی ہے۔

سارہ گلبرٹ نے کہا کہ توقع ہے کہ آکسفورڈ ویکسین پر جلد پیشرفت ہوگی مگر انہوں نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ کب تک یہ ویکسین تیار ہوجائے گی، کیونکہ اس کا انحصار ٹرائل کے نتائج پر ہوگا۔

برطانوی یونیورسٹی پہلے ہی سوئیڈن سے تعلق رکھنے والی فارماسیوٹیکل کمپنی آسترا زینکا کے ساتھ ویکسین کے ڈوز تیار کرنے کے لیے شراکت داری کرچکی ہے اور دنیا کو اس وبائی مرض سے بچانے کے لیے مختلف اداروں جیسے سیرم انسٹیٹوٹ آف انڈیا (ایس آئی آئی)، کولیشن آف ایپی ڈیمیک پریپرڈنس انوویشن (سی ای پی آئی) اور گاوی ویکسین الائنس کو بھی ساتھ ملایا گیا ہے۔

مائیکرو سافٹ کے بانی کے فلاحی ادارے بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے زیرتحت تیار ہونے والی کووڈ 19 ویکسین کے لیے 75 کروڑ ڈالرز دینے کا اعلان کیا ہے۔

بل گیٹس کی جانب سے فراہم کیے جانے والے کروڑوں ڈالرز ویکسین کی 30 کروڑ ڈوز کی فراہمی کے لیے استعمال کیے جائیں گے اور توقع ہے کہ پہلی کھیپ 2020 کے آخر تک مختلف ممالک میں بھیجنے کے لیے تیار ہوگی۔

ایس آئی آئی کے ساتھ ایک الگ معاہدے کے تحت ایک ارب ڈوز غریب اور متوسط ممالک کو فراہم کیے جائیں گے جن میں سے 40 کروڑ ڈوز 2021 سے پہلے سپلائی ہوں گے۔

آسترا زینکا کے مطابق مجموعی طور پر اس ویکسین کے 2 ارب ڈوز تیار ہوں گے جو وبا کے دوران بغیر منافع کے ممالک کو فراہم کیے جائیں گے۔

75 کروڑ کی سرمایہ کاری بل گیٹس کی اس حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد کووڈ 19 ویکسین کو تیاری کے ساتھ فراہم کرنے کو یقینی بنانا ہے۔

برطانوی سائنسدانوں کو توقع ہے کہ وہ انسانی آزمائش کو ستمبر تک مکمل کرکے ویکسین کو عام استعمال کے لیے متعارف کرادیں گے۔

23 اپریل سے اس ویکسین کی انسانوں پر آزمائش شروع ہوئی اور ابتدائی مرحلے میں ڈیڑھ ہزار افراد کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔

اس تجرباتی ویکسین کی 6 بندروں پر ہونے والی ایک چھوٹی تحقیق میں ان جانوروں کو سنگل ڈوز دیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ ان میں 14 دن کے اندر وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز بن گئیں اور ان سب میں 28 دن کے اندر حفاظتی اینٹی باڈیز بھی بن گئیں۔

جب ان بندروں کو کورونا وائرس سے متاثر کرنے کی کوشش کی گئی تو ویکسین نے پھیپھڑوں میں نقصان کی روک تھام کی اور وائرس کو اپنی نقول بنانے سے روک دیا، مگر ناک میں وہ اپنی نقول بناتا رہا۔

ایڈریان ہل کا کہنا تھا کہ جانوروں پر تجربات کے ڈیٹا بہت حوصلہ افزا ہیں اور اس سے ان کی ٹیم کا اعتماد بڑھ گیا ہے کہ انسانوں پر اس کی آزمائش کے نتائج بھی مثبت ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اب تک ٹرائل کے دوران ایک ہزار سے زائد افراد کو ویکسین کے ڈوز دیئے جاچکے ہیں جن میں سے نصف کو تجرباتی ویکسین دی گئی جبکہ باقی کنٹرول گروپ کا کام کررہے ہیں۔

جب ان سے ٹرائل میں پیشرفت کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ 'ہم لائیو کمنٹری نہیں کرسکتے، مگر آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ اگر ٹرائل ابھی تک کام کررہا ہے اور یقیناً کررہا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی بڑا اپ سیٹ نہیں ہوا'۔

تبصرے (0) بند ہیں