توہین عدالت کیس: وزیراعظم کی غیرمعینہ مدت تک سماعت ملتوی کرنے کی درخواست مسترد

اپ ڈیٹ 23 جولائ 2020
عمران خان نے پریس کانفرنس میں فوزیہ بی بی پر سینیٹ کا ووٹ بیچنے کا الزام عائد کیا تھا — فائل فوٹو: اے پی پی
عمران خان نے پریس کانفرنس میں فوزیہ بی بی پر سینیٹ کا ووٹ بیچنے کا الزام عائد کیا تھا — فائل فوٹو: اے پی پی

پشاور: مقامی عدالت نے سابق رکن صوبائی اسمبلی فوزیہ بی بی کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف دائر توہین عدالت کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے انہیں 8 اگست تک جواب داخل کرنے کی ہدایت کردی۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عبدالمجید نے حکم دیا کہ اگلی تاریخ تک جواب داخل نہ ہونے کی صورت میں عدالت ان کی عدم موجودگی میں ہی کیس کی سماعت کرے گی۔

مزید پڑھیں: پشاور: ایڈیشنل سیشن عدالت کا وزیراعظم عمران خان کو دوبارہ نوٹس

پاکستان تحریک انصاف کی مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی سابق رکن صوبائی اسمبلی نے عمران خان کی جانب سے ان کے خلاف عائد کیے گئے بے بنیاد الزامات لگاکر انہیں بدنام کرنے پر 50 کروڑ روپے ہرجانے کا مقدمہ دائر کیا ہے۔

خیال رہے کہ عمران خان نے پریس کانفرنس کے دوران ان پر سینیٹ کا ووٹ فروخت کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل محمد حبیب قریشی وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے اور اس معاملے پر اس کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست جمع کراتے ہوئے کہا کہ 14 دسمبر 2019 کو عدالت کی جانب سے دیے گئے حکم کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی۔

حبیب قریشی نے استدعا کی کہ 12 اکتوبر کو ہائی کورٹ مذکورہ اپیل کی سماعت کرے گی لہٰذا جب تک عدالت اس اپیل پر فیصلہ نہیں کرتی ہے اس وقت تک موجودہ ٹرائل کورٹ اس مقدمے کی سماعت ملتوی کر دے۔

یہ بھی پڑھیں: ہارس ٹریڈنگ کا الزام: 5 ارکان صوبائی اسمبلی کا عمران خان کو ہتک عزت کا نوٹس

جب عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ہائی کورٹ نے فوری مقدمے کی سماعت روکنے کے لیے کسی بھی حکم امتناع کو جاری کیا ہے تو انہوں نے نفی میں جواب دیا جس کے بعد عدالت نے ان کی درخواست مسترد کردی اور کوڈ آف سول پروسیجر کے ضابطہ آرڈر VIII رول 10 کے تحت مقدمے میں جواب داخل کرنے کی ہدایت کی۔

مذکورہ قانون کے تحت اگر کسی فریق سے تحریری بیان کی ضرورت ہو اور وہ عدالت کے مقرر کردہ وقت کے اندر وہ پیش کرنے میں ناکام ہو جائے تو عدالت اس کے خلاف فیصلہ سنائے گی یا اس کی مناسبت اس مقدمے کے سلسلے میں حکم دے سکتی ہے۔

مدعی کی جانب سے وکیل سید غفران اللہ شاہ پیش ہوئے اور دعویٰ کیا کہ عدالت کی جانب سے عمران خان کو متعدد بار تحریری جواب داخل کرنے کے احکامات جاری کیے جانے کے باوجود جواب داخل نہیں کرایا گیا، انہوں نے استدلال کیا کہ مدعا علیہ گزشتہ دو سالوں سے تاخیری حربے استعمال کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات: ’ہارس ٹریڈنگ میں پی ٹی آئی کی بیشتر خواتین ارکان ملوث‘

14 دسمبر کو عدالت نے عمران خان کی جانب سے مقدمے کو خارچ کرنے کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کردی تھی جہاں انہوں نے مؤقف اپنایا تھا کہ مقدمہ قابل سماعت نہیں، مدعا علیہ نے مؤقف اپنایا تھا کہ مدعی (فوزیہ بی بی) کی جانب سے جس پریس کانفرنس کا حوالہ دیا گیا ہے، وہ عمران خان نے پارٹی کی انضباطی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد کی تھی۔

انہں نے کہا کہ برخاستگی کے حکم کو عمران خان کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا اور یہ مقدمہ تاحال زیر التوا ہے۔

اس سے قبل عمران خان کی جانب سے سی پی سی کے آرڈر VII کے رول 10 کے تحت ایک اور درخواست دائر کی گئی تھی جس میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ مقدمہ خارج کردے کیونکہ زیر بحث پریس کانفرنس اسلام آباد میں کی گئی تھی جو موجودہ عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔

تاہم اس درخواست کو بھی عدالت نے 30 جنوری 2019 کو خارج کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات

یہ ہتک عزت کا مقدمہ جون 2018 میں ہتک عزت آرڈیننس 2002 کے تحت دائر کیا گیا تھا، اس مقدمے میں واحد مدعا علیہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان تھے جو بعد میں وزیر اعظم بنے۔

فوزیہ بی بی نے دعویٰ کیا کہ 3 مارچ 2018 کو ہوئے سینیٹ انتخابات میں انہوں نے اپنی پارٹی کے تمام امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالنے کی ہدایات پر عمل کیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ سینیٹ انتخابات کے بعد مدعا علیہ نے باضابطہ طور پر جھوٹے اور بے بنیاد زبانی الزامات پھیلانا شروع کر دیے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں