کرپشن مقدمات کا فیصلہ 30 دن میں ممکن نہیں، چیئرمین نیب

اپ ڈیٹ 26 جولائ 2020
چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال—فائل فوٹو: ڈان نیوز
چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال—فائل فوٹو: ڈان نیوز

چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے جواب میں کہا ہے کہ مقدمات میں 50، 50 گواہ بنانا قانونی مجبوری ہے جبکہ 30 روز میں کرپشن مقدمات پر فیصلہ ممکن نہیں۔

عدالت عظمیٰ میں 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام، نیب کارکردگی سے متعلق اٹھائے گئے سوالات کے بعد چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے جواب جمع کروادیا۔

اپنے جواب میں چیئرمین نیب نے بتایا کہ موجودہ احتساب عدالتیں مقدمات کا بوجھ اٹھانے کے لیے ناکافی ہیں، حکومت کو کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ نیب عدالتوں کی تعداد کو بڑھایا جائے۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ کئی بار حکومت کو بتایا کہ مقدمات کے بوجھ کی وجہ سے ٹرائل میں تاخیر ہورہی ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا 120 احتساب عدالتوں کے قیام کیلئے حکومت سے ہدایت لینے کا حکم

عدالت عظمیٰ کی جانب سے 50، 50 گواہوں سے متعلق اٹھائے گئے سوال پر چیئرمین نیب نے جواب میں لکھا کہ 50، 50 گواہ بنانا قانونی مجبوری ہے۔

ساتھ ہی وہ بولے کہ کرپشن مقدمات پر 30 دن میں فیصلہ ممکن نہیں ہے۔

اپنے جواب میں چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ کراچی، لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد اور بلوچستان میں اضافی عدالتوں کی ضرورت ہے، ہر احتساب عدالت اوسطاً 50 مقدمات سن رہی ہے۔

چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ عدالتوں میں تعیناتی کے لیے 120 ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز نہیں تو ریٹائرڈ جج بھی تعینات ہوسکتے ہیں، اس کے علاوہ احتساب عدالتوں کے خلاف اپیلیں سننے کے لیے بھی ریٹائرڈ ججز کی خدمات لی جا سکتی ہیں۔

جواب میں کہا گیا کہ نیب عدالتیں ضابطہ فوجداری پر سختی سے عمل کرتی ہیں، احتساب عدالتیں ضابطہ فوجداری پر عمل نہ کرنے کا اختیار استعمال نہیں کرتیں،

انہوں نے کہا کہ ملزمان کی متفرق درخواستیں اور اعلیٰ عدلیہ کے حکم امتناع بھی کیسز کے فیصلوں میں تاخیر کی وجہ ہے جبکہ عدالتیں ضمانت کیلئے سپریم کورٹ کے وضع کردہ اصولوں پر عمل نہیں کرتیں، اس کے علاوہ ملزمان کو اشتہاری قرار دینے کا طریقہ کار بھی وقت طلب ہے۔

عدالت عظمیٰ میں جمع اس جواب کے مطابق بیرون ممالک سے قانونی معاونت ملنے میں تاخیر بھی بروقت فیصلے نہ ہونے کی وجہ ہے۔

اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ عدالتوں کی جانب سے 'سیاسی شخصیات' کے لفظ کی غلط تشریح کی جاتی ہے، غلط تشریح کے باعت سیاسی شخصیات کا مطلب غیر ملکی اداروں کو سمجھانا مشکل ہوجاتا۔

چیئرمین نیب کے جواب میں کہا گیا کہ رضاکارانہ رقم واپسی کا اختیار استعمال کرنے سے سپریم کورٹ روک چکی ہے، رضاکارانہ رقم واپسی کی اجازت ملے تو کئی کیسز عدالتوں تک نہیں پہنچیں گے۔

خیال رہے کہ 8 جولائی کو لاکھڑا کول مائننگ پلانٹ کی تعمیر میں بے ضابطگیوں سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے سیکریٹری قانون کو حکم دیا تھا کہ وہ کیسز کے بڑے بیک لاک کو ختم کرنے کے لیے کم از کم 120 احتساب عدالتیں قائم کرنے کے لیے حکومت سے فوری طور پر ہدایات حاصل کریں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے یہ ہدایات سال 2000 سے 1226 ریفرنسز کے زیر التوا ہونے سمیت مجموعی طور پر 25 میں سے 5 احتساب عدالتوں میں اسامیاں خالی ہونے پر مایوسی کے اظہار کے بعد سامنے آئیں تھیں۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ریفرنسز کا فیصلہ تو 30 دن میں ہونا چاہیے، لگتا ہے 1226 ریفرنسز کے فیصلے ہونے میں ایک صدی لگ جائے گی۔

بعد ازاں 23 جولائی کو ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ کرپشن مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا ذمہ دار نیب ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ کرپشن مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا آغاز ہی نیب کے دفتر سے ہوتا ہے، قانونی پہلوؤں کا تفتیشی افسران کو پتا ہی نہیں ہوتا اور اس طرح برسوں تحقیقات چلتی رہتی ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ ریفرنس میں کوئی معیار نہیں ہوتا، ایک ہی گواہ کافی ہوتا ہے لیکن یہاں 50، 50 لوگوں کو گواہ بنا لیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کرپشن مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا ذمہ دار نیب ہے، سپریم کورٹ

مزید برآں عدالت نے وفاقی کابینہ سے 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام کی منظوری لینے، نئی احتساب عدالتوں کے لیے انفرا اسٹرکچر بنانے اور ایک ماہ میں نیب رولز بنا کر پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

خیال رہے کہ ملک کے اہم مسائل میں سے بدعنوانی ایک اہم مسئلہ ہے جس کے خاتمے کے لیے قومی احتساب بیورو (نیب) کا ادارہ تشکیل دیا گیا تھا۔

اس وقت نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال ہیں اور وہ کئی مرتبہ بلا امتیاز احتساب کے عزم کو دوہرا چکے ہیں۔

تاہم اس کے باوجود اب تک احتساب عدالتوں میں کئی مقدمات زیر التوا ہیں جبکہ اپوزیشن میں موجود جماعتیں موجودہ حکومت پر یہ الزام لگاتی آرہی ہیں کہ نیب کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ حکومت ہمیشہ ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔

اس کے علاوہ گزشتہ دنوں خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کے خلاف پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی کیس کے تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ نے نیب کے طرز عمل کو قانون، عدل، انصاف اور معقولیت کی مکمل خلاف ورزی کا واضح اظہار قرار دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں