نریندر مودی 5 اگست کو ایودھیا مندر کا سنگ بنیاد رکھیں گے

اپ ڈیٹ 27 جولائ 2020
گزشتہ برس نومبر میں بھارتی سپریم کورٹ نے متنازع زمین پر رام مندر تعمیر کرنےکا حکم دیا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی
گزشتہ برس نومبر میں بھارتی سپریم کورٹ نے متنازع زمین پر رام مندر تعمیر کرنےکا حکم دیا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی

نئی دہلی: ایودھیا میں بابری مسجد کی متنازع زمین کی جگہ پر مندر کی تعمیر کی نگرانی کرنے والے ٹرسٹ کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی آئندہ ماہ 5 اگست کو ایودھیا مندر کا سنگِ بنیاد رکھیں گے۔

خیال رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے 9 نومبر 2019 کو 1992 میں شہید کی گئی تاریخی بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی متنازع زمین پر رام مندر تعمیر کرنے اور مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لیے متبادل کے طور پر علیحدہ اراضی فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

ڈان اخبار میں شائع امریکی خبررساں ادارے 'اے پی' کی رپورٹ کے مطابق منتظمین کا کہنا تھا کہ سنگِ بنیاد کی تقریب 5 اگست کو رکھی گئی ہے جو علم نجوم کے لحاظ سے ہندوؤں کے لیے بہت اچھا دن ہے۔

تاہم اسی روز بھارتی پارلیمنٹ کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کو ختم کرنے کے یکطرفہ فیصلے کو بھی ایک برس مکمل ہوجائے گا۔

مزید پڑھیں: بابری مسجد کی زمین پر رام مندر تعمیر کیا جائے گا، بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے الحاق شدہ ہندو قوم پرست جماعت وشوا ہندو پریشد یا ورلڈ ہندو آرگنائزیشن کے مطابق چونکہ بھارت میں کورونا وائرس تاحال تیزی سے پھیل رہا ہے اور کیسز کے لحاظ سے عالمی سطح پر تیسرے نمبر پر ہے لہٰذا تقریب براہِ راست سرکاری نشریاتی ادارے پر نشر کی جائے گی اور شرکا کی تعداد کو محدود رکھا جائے گا۔

وشوا ہندو پریشد کے ترجمان ونود بنسل نے اس حوالے سے 2 روز قبل جاری کردہ اعلامیے میں کہا کہ یہ مندر معاشرتی ہم آہنگی، قومی یکجہتی، ہندوتوا کا احساس کو یکجا اور اسے بیدار کرنے کے ایک پائیدار اور لازوال مرکز کے طور پر کام کرے گا۔

ادھر نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات کے علاقے احمد آباد کے آرکیٹیکٹ نے 161 فٹ (49 میٹر) بلند ڈھانچہ تیار کرنے کی پیشکش کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کی نگرانی کیلئے ٹرسٹ بنا دیا گیا، مودی

پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدیتیا ناتھ نے درخواست کی ہے کہ نریندر مودی کے دورے سے قبل ایودھیا میں صفائی ستھرائی کی ایک تقریب منعقد کی جائے اور شہر کے تمام مندروں میں تیل کے دیے جلائیں جائیں۔

یوگی آدیتیا ناتھ نے مزید کہا کہ یہ موقع '500 سال طویل جدوجہد' کا اختتام ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں بھارت کی سپریم کورٹ نے دہائیوں بعد فیصلہ سنایا تھا کہ مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کی نگرانی کے لیے ایک ٹرسٹ بنایا جائے جو انتظامات کو دیکھے گا جبکہ مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لیے زمین دینے کو کہا تھا۔

سابق چیف جسٹس بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا تھا کہ ’ایودھیا میں متنازع زمین پر مندر قائم کیا جائے گا جبکہ مسلمانوں کو ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے نمایاں مقام پر 5 ایکڑ زمین فراہم کی جائے گی'۔

مزید پڑھیں: بابری مسجد تنازع حل نہ ہونے پر بھارت میں خانہ جنگی کا خطرہ، ثالث کی تنبیہ

ایک ہزار 45 صفحات پر مشتمل مذکورہ فیصلہ اس وقت کے بھارتی چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سنایا تھا۔

فیصلے میں بھارتی سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ایودھیا میں بابری مسجد کی متنازع زمین کے مالک رام جنم بھومی نیاس ہیں، ساتھ ہی یہ حکم دیا تھا کہ مندر کی تعمیر کے لیے 3 ماہ میں ٹرسٹ تشکیل دی جائے۔

یہ بھی پڑھیں:بابری مسجد کیس فیصلہ:بھارتی سپریم کورٹ نے تمام نظرثانی درخواستیں مسترد کردیں

فیصلے کے ابتدائی حصے میں عدالت عظمیٰ نے بابری مسجد کے مقام پر نرموہی اکھاڑے اور شیعہ وقف بورڈ کا دعویٰ مسترد کیا تھا۔

اہم ترین اور 27 سال سے جاری کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ آثارِ قدیمہ کے جائزے سے یہ بات سامنے آئی کہ بابری مسجد کے نیچے بھی تعمیرات موجود تھیں جو اسلام سے تعلق نہیں رکھتی تھیں۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اس بات کے اطمینان بخش شواہد موجود ہیں کہ بابری مسجد کسی خالی زمین پر تعمیر نہیں کی گئی تھی۔

فیصلے کے بعد مسلم تنظیموں اور افراد کی جانب سے بھارتی عدالت عظمٰی میں نظرثانی درخواستیں دائر کی گئی تھیں جس کو سپریم کورٹ نے12 دسمبر کو مسترد کردیا تھا۔

بابری مسجد کیس پس منظر

یاد رہے کہ 6 دسمبر 1992 میں مشتعل ہندو گروہ نے ایودھیا کی بابری مسجد کو شہید کردیا تھا جس کے بعد بدترین فسادات نے جنم لیا تھا اور 2 ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، ان فسادات کو تقسیم ہند کے بعد ہونے والے سب سے بڑے فسادت کہا گیا تھا۔

جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا اس کے بعد سے اس مقام کا کنٹرول وفاقی حکومت اور بعدازاں سپریم کورٹ نے سنبھال لیا تھا۔

بھارت کی ماتحت عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ 2.77 ایکڑ کی متنازع اراضی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تقسیم ہو گی۔

مزید پڑھیں: بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کیلئے انتہا پسند ہندوؤں کو جمع ہونے کی کال

ایودھیا کے اس مقام پر کیا تعمیر ہونا چاہیے، اس حوالے سے مسلمان اور ہندو دونوں قوموں کے افراد نے 2010 میں بھارتی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ اپنی اپنی درخواستیں سپریم کورٹ میں جمع کروا رکھی تھیں جس نے اس معاملے پر اُسی سال 8 مارچ کو ثالثی کمیشن تشکیل دیا تھا۔

اس تنازع کے باعث بھارت کی مسلمان اقلیت اور ہندو اکثریت کے مابین کشیدگی میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں