سوڈان: فائرنگ سے 60 افراد کی ہلاکت پر وزیراعظم کا فوج بھیجنے کا اعلان

اپ ڈیٹ 27 جولائ 2020
دارفر کے علاقے میں 2003 سے اقلیتی باغیوں اور حکومت افواج کے درمیان تنازع چل رہا ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
دارفر کے علاقے میں 2003 سے اقلیتی باغیوں اور حکومت افواج کے درمیان تنازع چل رہا ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

سوڈان کے مغربی علاقے دارفر میں فائرنگ کے نتیجے میں 60 افراد کے قتل کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے جس کے بعد وزیر اعظم عبداللہ ہمدوک نے علاقے میں تازہ دم فوجی دستے بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کے عہدیدار نے اپنے بیان میں کہا کہ حملہ آوروں نے مقامی مسالیت برادری کو نشانہ بنایا اور بڑے پیمانے پر لوٹ مار کرنے کے بعد گھروں کو آگ لگا دی۔

مزید پڑھیں: سوڈان میں فوجی طیارہ گر کر تباہ، 16 افراد ہلاک

اقوام متحدہ کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق تقریباً 500 مسلح افراد نے ہفتے کی سہ پہر دارفر کے شمال میں واقع بیدا کے علاقے ماستری میں حملہ کیا۔

خرعطوم میں اقوام متحدہ کے انسانی امور کے رابطہ کار دفتر سے جاری بیان کے مطابق یہ گزشتہ ہفتوں میں رپورٹ ہونے والے حملوں کی تازہ کڑی ہے جس میں متعدد گاؤں اور گھروں کو جلا دیا گیا جبکہ مارکیٹوں اور دکانوں کو لوٹنے کے بعد انفرا اسٹرکچر کو نقصان پہنچایا گیا۔

ماستری میں ہفتے کے حملے کے بعد تقریباً 500 افراد نے مقامی سطح پر اس اندوہناک واقعے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے حکام سے سیکیورٹی اور تحفظ کی فراہمی کا مطالبہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: بیرون ملک جانے والی سوڈانی خواتین کا ایئرپورٹ پر وزن کرنے کا حکم

اتوار کو وزیر اعظم عبداللہ ہمدوک نے علاقے کی خواتین کے وفد سے ملاقات کے بعد اپنے بیان میں کہا کہ حکومت تنازع کا شکار دارفر کے علاقے میں عوام اور کاشتکاری کے سیزن کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سیکیورٹی فورسز بھیجے گی اور ان دستوں میں پولیس اور فوج دونوں کے اہلکار شامل ہوں گے۔

عینی شاہدین کے مطابق جمعہ کو مسلح افراد گاڑیوں کے ذریعے آئے اور کھیت سے کام کر کے لوٹنے والے 20 افراد کو قتل کردیا۔

دارفر میں 2003 سے اقلیتی باغیوں اور حکومت افواج کے درمیان تنازع چل رہا ہے اور باغیوں کو کچلنے کے لیے جاری اس حکومتی مہم میں اب تک 3 لاکھ افراد ہلاک اور 25 لاکھ سے زائد بے گھر ہو چکے ہیں۔

سابق صدر عمر البشیر کے اقتدار کے خلاف احتجاج کے بعد فوج نے انہیں عہدے سے ہٹا دیا تھا جس کے بعد حالات قدرے بہتر ہو گئے تھے اور رواں سال حکومت اور 9 باغی گروپوں پر مشتمل اتحادی حکومت نے ایک امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

مزید پڑھیں: سوڈان: عمرالبشیر کی برطرفی کے بعد اصلاحات میں تیزی کیلئے عوامی احتجاج

عمر البشیر پر نسل کشی اور انسانیت سوز جرائم کے ارتکاب کا الزام ہے جس کے باعث وہ عالمی عدالت انصاف کو مطلوب ہیں۔

سابق صدر کے اقتدار سے بے دخل کیے جانے کے بعد نقل مکانی کرنے والے افراد نے 2 ماہ قبل حکومت سے ہوئے معاہدے کے تحت اپنے گھروں کو واپسی شروع کردی تھی تاکہ وہ اکتوبر نومبر میں موسم کی فصل کاشت کر سکیں۔

لیکن خونریزی کا سلسلہ جاری رہا خصوصاً زمین کے حقوق پر تنازعات مزید سنگین ہوگئے ہیں۔

مقامی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ماہر آدم محمد نے کہا کہ زمین اس تنازع کی ایک بڑی وجہ ہے، جنگ کے دوران لوگ اپنی زمین اور گاؤں چھوڑ کر کیمپوں میں چلے گئے تھے اور ان کی جگہ خانہ بدوش آ گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں