اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاونین خصوصی کی دوہری شہریت کے خلاف درخواست مسترد کردی

اپ ڈیٹ 31 جولائ 2020
سینئر وکیل محمد اکرام کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں استدلال کیا گیا تھا کہ 1973 کے رولز 4 (6) آئین کے اختیار سے باہر ہے۔ فائل فوٹو:ڈان
سینئر وکیل محمد اکرام کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں استدلال کیا گیا تھا کہ 1973 کے رولز 4 (6) آئین کے اختیار سے باہر ہے۔ فائل فوٹو:ڈان

اسلام آباد ہائیکورٹ نے دوہری شہریت رکھنے والے وزیر اعظم کے معاونین خصوصی کے تقرر کو چیلنج کرنے والی ایک درخواست خارج کردی اور کہا کہ وزیر اعظم کو زیادہ سے زیادہ معاونین کے تقرر کا حق حاصل ہے کیونکہ انہیں حکومتی امور چلانے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینئر وکیل محمد اکرام چودھری کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں بنیادی طور پر یہ استدلال کیا گیا تھا کہ 1973 کے رولز 4 (6) آئین کے اختیار سے باہر ہے۔

درخواست میں وکیل نے دوہری شہریت کے معاملے پر بھی مدعا علیہان کو نااہل قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

عدالت میں مشاہدہ کیا گیا تھا کہ 'وزیر اعظم ریاست کے چیف ایگزیکٹو ہیں اور انہیں متعدد / پیچیدہ فرائض انجام دینے پڑتے ہیں، وزیر اعظم کے طور پر منتخب ہونے والا شخص پاکستان اور مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے سامنے جوابدہ ہے'۔

آئین کے تحت بیان کردہ وزیر اعظم کا کردار وہ اکیلے ادا نہیں کرسکتے، وزیر اعظم کو ریاست کے امور چلانے کے لیے عہدیداروں یا دیگر افراد کو مدد کے لیے مقرر کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔

مزید پڑھیں: 'مختلف معاملات پر تنقید'، معاونین خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا، تانیہ ایدروس مستعفی

عدالتی حکم کے مطابق رول 4 (6) ایسے ہی طریقوں میں سے ایک ہے جس کے تحت وزیر اعظم کو خصوصی معاونین کے تقرر کا اختیار دیا گیا ہے، خصوصی معاونین کی تعداد کے بارے میں کوئی پابندی نہیں ہے جبکہ دوہری شہریت رکھنے والے افراد کے تقرر پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے، آئین میں فراہم کردہ واحد پابندی آرٹیکل 63 (1) (سی) کے تحت ہے اور یہ پارلیمٹ میں منتخب ہونے والے یا منتخب کردہ افراد کی نااہلی تک محدود ہے'۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ 'صوبائی اسمبلی کی رکنیت کی صورت میں بھی نااہلی کی جاسکتی ہے، چند قوانین موجود ہیں جو ملازمت کے لیے اہلیت کے طور پر کسی اور ریاست کی شہریت ترک کرنے کا مشورہ دیتے ہیں'۔

عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ: "1973 کے رول 4 (6) کے تحت خصوصی معاون کے تقرر کے لیے اس طرح کی کوئی پابندی نہیں ہے، 1973 کے قواعد کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکلکز 90 اور 99 کے تحت دیے گئے اختیارات کے استعمال سے وفاقی حکومت نے اپنائے اور اس کو قانونی طور پر نوٹی فائی کیا ہے، آرٹیکل 99 کا ذیلی آرٹیکل 3 وفاقی حکومت کو اپنے کاروبار میں مختص اور لین دین کے لیے قواعد بنانے کا اختیار دیتا ہے۔

عدالت نے نوٹ کیا کہ پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ 1951 کے تحت پاکستان کے شہری کو دوہری شہریت رکھنے کی صریحاً اجازت دی گئی تھی جیسا کہ دفعہ 14 (3) میں بیان کیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ دوہری شہریت کے حامل وزیر اعظم کے معاون خصوصی کے طور پر تقرر کے سلسلے میں شکوک و شبہات اٹھانا یا شکوہ کرنا مناسب نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کے 4 معاونین خصوصی دوہری شہریت کے حامل

عدالت کے مطابق 'پاکستان کے شہری کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس پر شبہ کیا جاسکتا ہے، جو شخص دوہری شہریت کا حامل ہے وہ واقعتا پاکستان کا شہری ہے اور اس طرح اس کی پاکستان اور حب الوطنی سے وابستگی پر شک نہیں کیا جاسکتا'۔

دریں اثنا چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی برطرفی کے مطالبہ کے ساتھ ان کے سامنے پیش کی گئی ایک درخواست گزار پر 10 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کردیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ درخواست گزار ظہور مہدی نے اس درخواست کو صحیح طریقے سے پیش نہیں کیا اور نہ ہی صدر کے تقرر کے خلاف حکم نامہ ماننے کی کوئی ٹھوس وجہ پیش کی تھی۔

درخواست کو مسترد کرتے ہوئے عدالت نے نوٹ کیا کہ اس طرح کی گھناؤنی درخواستوں سے عدالتوں پر بوجھ پڑتا ہے اور عدالتی انتظامیہ کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں