وزیر اعظم کے معاونین کی تعیناتیوں کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست

اپ ڈیٹ 12 اگست 2020
درحقیقت میں یہ درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ کے 30 جولائی کو مسترد ہونے والی درخواست کے خلاف اپیل ہے۔ اے پی پی:ڈان نیوز:فائل فوٹو
درحقیقت میں یہ درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ کے 30 جولائی کو مسترد ہونے والی درخواست کے خلاف اپیل ہے۔ اے پی پی:ڈان نیوز:فائل فوٹو

اسلام آباد: سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ وزیراعظم کے 8 معاونین خصوصی اور ایک مشیر کے تقرر کو دوہری شہریت رکھنے کی وجہ سے غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے اور مطلوبہ عہدوں پر تقرر کے نوٹیفیکیشن کو واپس لینے کا حکم دے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق درحقیقت میں یہ درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ کے 30 جولائی کو مسترد ہونے والی درخواست کے خلاف اپیل ہے۔

یہ اپیل ایڈووکیٹ ملک منصف اعوان نے اپنے وکیل محمد اکرام چوہدری کے ذریعے دائر کی جنہوں نے تقرریوں کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاونین خصوصی کی دوہری شہریت کے خلاف درخواست مسترد کردی

عدالت عظمی میں جن لوگوں کے تقرر کو چیلنج کیا گیا ہے ان میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی ندیم بابر، وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت عبد الرزاق داؤد، معاون خصوصی برائے پاور ڈویژن شہزاد قاسم، معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانی سید ذوالفقار عباس بخاری،معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گل، معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف اور معاون خصوصی برائے پارلیمانی رابطہ ندیم افضل گوندل شامل ہیں۔

اپنے فیصلے میں ہائی کورٹ نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وزیر اعظم ریاست کے ایک اہم ترین ستون کے چیف ایگزیکٹو ہیں اور انہیں متعدد / پیچیدہ فرائض انجام دینا پڑتے ہیں اور آئین کے تحت بیان کردہ وزیر اعظم کا کردار وہ اکیلے نہیں ادا کرسکتے۔

انہوں نے کہا کہ 'وزیر اعظم کو ریاست کے ایگزیکٹو کا کام کرنے کے قابل بنانے کے لیے انہیں عہدیداروں یا دیگر افراد کی مدد کے لیے تقرر کرنے کی آزادی حاصل ہونی چاہیے، خصوصی معاونین کی تعداد کے بارے میں کوئی پابندی نہیں ہے جو وزیر اعظم تعینات کرسکتے ہیں'۔

ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ 'دوہری شہریت رکھنے والے افراد کے تقرر پر کوئی پابندی نہیں ہے، آئین میں فراہم کردہ واحد پابندی آرٹیکل 63 (1) (سی) کے تحت ہے اور یہ پارلیمٹ میں منتخب ہونے والے یا منتخب کردہ افراد کی نااہلی تک محدود ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: 'مختلف معاملات پر تنقید'، معاونین خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا، تانیہ ایدروس مستعفی

سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اپیل میں دلیل دی گئی کہ کابینہ ڈویژن نے حال ہی میں 20 مشیروں اور معاونین خصوصی کے اثاثوں اور دوہری شہریت کی تفصیلات جاری کی ہیں۔

اس کے علاوہ معاونین خصوصی کے پاس بھی پاکستان اور بیرون ملک لاکھوں روپے مالیت کی جائیدادیں ہیں۔

درخواست میں حیرت کا اظہار کیا گیا کہ جب اتنے دشمن پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو کوئی غیر ملکی شہریوں سے قومی سلامتی، معیشت، ڈیجیٹلائزیشن اور منصوبہ بندی، مستقبل کے امکانات، سیاسی اور پارلیمانی امور سے متعلق امور پر غیر جانبدارانہ اور ایماندارانہ مشورے کی توقع کیسے کرسکتا ہے۔

اس اپیل میں ایسے افراد میں حساس معلومات کی مبینہ چوری کو جانچنے کے لیے وضع کردہ میکانزم پر سوال اٹھایا گیا جنہوں نے دوسرے ممالک سے تابعداری کا حلف لیا ہوا ہے اور انہیں ملک کے جوہری اثاثوں کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی و معیشت کے حوالے سے بھی حساس معلومات تک رسائی حاصل ہے۔

درخواست میں دلائل دیئے گئے کہ ان غیر ملکی شہریوں کے تقرر بھی وزیر اعظم کے اپنے عہدے کے لیے اٹھائے گئے حلف کے خلاف ہے جس میں پاکستان کے ساتھ وفاداری کا تصور دیا گیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ حساس معلومات کو محفوظ بنانے کے لیے غیر ملکی شہریوں کو اہم مند عہدوں سے ہٹانا ضروری ہو گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں