بی آر ٹی میں گارڈز پر تشدد کے بعد پولیس تعینات کردی گئی

اپ ڈیٹ 15 اگست 2020
بی آر ٹی اسٹیشنز پر 250 کے قریب اہلکار تعینات کر دیے گئے—تصویر: زاہد خان
بی آر ٹی اسٹیشنز پر 250 کے قریب اہلکار تعینات کر دیے گئے—تصویر: زاہد خان
بی ٓر ٹی کے افتتاح کے بعد لوگوں نے جوق در جوق بس کے سفر کے لیے اسٹیشنوں کا رخ کیا— فوٹو: عبدالمجید گورایا
بی ٓر ٹی کے افتتاح کے بعد لوگوں نے جوق در جوق بس کے سفر کے لیے اسٹیشنوں کا رخ کیا— فوٹو: عبدالمجید گورایا

پشاور میں مشتعل ہجوم کی ہنگامہ آرائی اور گارڈ پر تشدد کے بعدبس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) کی سیکیورٹی کے لیے پولیس تعینات کردی گئی۔

سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس(ایس ایس پی) آپریشنز پشاور منصور امان نے ڈان نیوز کو بتایا کہ ہم نے آج سے بی آر ٹی اسٹیشنز پر 250 کے قریب اہلکار تعینات کر دیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہر اسٹیشن پر 4 پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں جبکہ تمام 30 اسٹیشنز کے تحفظ اور انہیں سیکیورٹی کی فراہمی کے لیے مزید پولیس اہلکار گشت پر بھی مامور ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پشاور پولیس دو شفٹوں میں فرائض انجام دے گی جبکہ بی آر ٹی کے سینٹرل کنٹرول روم میں ایک ترجمان کو رابطے کے لیے بھی تعینات کردیا گیا ہے۔

دوسری جانب پولیس نے بس ریپڈ ٹرانزٹ راہداری پر غیرقانونی طور پر گھسنے اور گارڈز کو زدوکوب کرنے کے الزام میں دو افراد کو گرفتار کرلیا تھا۔

لوگ جمعرات کی رات یوم آزادی منانے کے لیے بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے تھے، ان میں سے بہت سے لوگوں نے بی آر ٹی کوریڈور میں داخل ہوکر گارڈز کی جانب سے روکنے پر اس کی پٹائی کردی تھی۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان نے بی آر ٹی پشاور کا افتتاح کردیا

ایک پولیس عہدیدار نے بتایا کہ بی آر ٹی میں غیرقانونی طور پر گھسنے والے دو افراد کو سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج سے شناخت کے بعد گرفتار کیا گیا جبکہ دیگر مشتعل افراد کی شناخت جاری ہے۔

عہدیدار نے بتایا کہ پولیس نے گارڈز کو زخمی اور دھمکیاں دینے اور بی آر ٹی کی املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں پاکستان پینل کوڈ سیکشن 337 (اے 2)، 337 (ایف 2)، 427 اور 506 کے تحت ایف آئی آر درج کر لی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کو بی آر ٹی کوریڈور میں بدتمیزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے متعلقہ محکمے سے باضابطہ درخواست موصول ہوئی ہے۔

تاہم ہشت نگری پولیس اسٹیشن کے ایک عہدیدار نے دعویٰ کیا ہے کہ اس واقعے میں کوئی بھی زخمی نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: بی آر ٹی پشاور، 6 ماہ کا وعدہ 3 سال میں مکمل

اس سے قبل ٹرانس پشاور کے چیف ایگزیکٹو آفیسر فیاض خان نے ڈان کو بتایا کہ کمپنی قانونی کارروائی کے لیے واقعے کی تفصیلات اکٹھا کررہی ہے۔

حکومت کی ملکیت میں بننے والی کمپنی ٹرانس پشاور بی آر ٹی آپریشنز کو سنبھالنے کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔

کمپنی کے ترجمان نے کہا کہ ہجوم نے بی آر ٹی مشینری کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا، ہم نگرانی کر رہے ہیں، صورتحال قابو میں ہے۔

ترجمان نے کہا کہ کچھ ہلا گلا کرنے والوں نے کمپنی کے محافظوں کے ساتھ برا سلوک کیا۔

تاہم انہوں نے کہا کہ جمعرات کی سہ پہر بس سروس کا آغاز ہونے کے بعد سے لوگ ہجوم کی شکل میں بی آر ٹی اسٹیشنوں کا رخ کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: بی آر ٹی کی تحقیقات کے فیصلے پر حکم امتناع میں توسیع

انہوں نے کہا کہ ممکن ہے کہ ایک دو دن میں ہی صورتحال معمول پر آجائے۔

اپنے فیس بک پیج پر ایک پوسٹ میں کمپنی نے بتایا کہ جمعرات سے ہی اسٹیشنوں اور بسوں میں واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

اس نے کہا کہ ہم سروس کے ہر لمحے کی نگرانی کر رہے ہیں اور ہر ایک کو آگاہ کریں گے کہ زیڈ یو پشاور کی عوام کی ٹرانسپورٹ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں، ہم سیکیورٹی فورسز کی مدد سے مجرموں کے خلاف کارروائی کریں گے، براہ کرم اس خدمت کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کریں اور کسی قسم کے نقصانات سے بچیں۔

سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ جی ٹی روڈ پر بی آر ٹی راہداری میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد داخل ہوئی اور بہت سے لوگوں نے گارڈز کو زدوکوب کیا۔

پھٹی ہوئی وردی اور گارڈز کو لگی چوٹیں سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تصاویر میں نمایاں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا حکومت بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات رکوانے سپریم کورٹ پہنچ گئی

ہجوم میں کچھ مشتعل افراد کی جانب سے گارڈز کو زدوکوب کرنے کا بھی کہا گیا، کچھ فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ گولیاں کس نے چلائیں۔

ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ لوگوں نے بڑی تعداد میں بی آر ٹی اسٹیشن پر بند کرایے کے دروازوں پر چھلانگ لگائی۔

وزیر اعظم عمران خان نے ایک عرصے سے تعطل کا شکار بی آر ٹی منصوبے کو شام پانچ بجے کے قریب لوگوں کے لیے باضابطہ طور پر شروع کیا تھا، اس کے بعد شدید گرمی کے باوجود مسافروں کی ایک بڑی تعداد نے شہر کی بی آر ٹی اسٹیشنوں پر سواری کا لطف اٹھایا۔


یہ خبر 15 اگست 2020 بروز ہفتہ ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں