بھارت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور مساجد جلانے کے لیے اکسانے والے حکمراں جماعت کے دائیں بازو کے انتہا پسند رہنما پر نفرت انگیز تقریر کے قواعد کی خلاف ورزی سے متعلق وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد سیاسی طوفان برپا ہے۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ فیس بک کی جانب سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی قوم پرست حکمراں جماعت کو متنازع مواد سے متعلق بھرپور تعاون حاصل ہے، جس کی ایک بڑی وجہ بھارت میں فیس بک کے صارفین کی تعداد ہے۔

مزیدپڑھیں: کاروباری مفادات کے سبب فیس بک بی جے پی کے نفرت آمیز مواد کے خلاف کارروائی سے گریزاں

بھارت میں اپوزیشن جماعت کانگریس نے وال اسٹریٹ جرنل پورٹ کے بعد فیس بک ملازمین کے حکمراں جماعت کے ساتھ مبینہ تعلقات کی بنیاد پر پارلیمانی تحقیقات کا مطالبہ کردیا ہے۔

بی جے پی کے قانون ساز اور سابق وزیر راجیوردھن سنگھ راٹھور نے کہا کہ فیس بک کا پہلے ہی ’بائیں بازو کانگریس کی طرف جھکاؤ ہے‘ ۔

انہوں نے انڈین ایکسپریس کے اخبار میں ایک کالم میں لکھا کہ یہ ایک طوفان محض فیس بک کو برا کرنے کی ایک کوشش ہے جو 'محض' رائے قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ فیس بک کے سابق اور موجودہ ایگزیکٹوز کی مثالیں موجود ہیں جن کے سابقہ حکومت اور حزب اختلاف کے رہنماؤں سے روابط رہے ہیں اور ان میں سے کچھ نے وزیر اعظم پر بھی کھل کر تنقید کی ہے، اس لیے ان پر بی جے پی کے حامی ہونے کا الزام لگانا مضحکہ خیز ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت: گستاخانہ فیس بک پوسٹ پر ہنگامے، 3 افراد ہلاک، 100 سے زائد گرفتار

بی جے پی کے ایک اور قانون ساز اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے ممبر تیجسوی سوریا نے کہا کہ بہت سے لوگوں نے ان سے شکایت کی تھی کہ فیس بک غیر منصفانہ طور پر بہت سارے قوم پرستوں، بھارت نواز یا ہندو نواز آوازوں کو سنسر کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے کو متعلقہ حکام سے ملاقات میں اٹھائیں گے۔

کانگریس پارٹی نے ٹوئٹ میں کہا کہ ’بی جے پی فیس بک کے ذریعے لاکھوں بھارتیوں کو کنٹرول اور ہیرا پھیری کرتی ہے اور اس کی مقبول میسجنگ سروس واٹس ایپ ہے‘۔

واضح رہے کہ 15 اگست کو وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ منظر عام پر آئی تھی کہ مسلمانوں کے خلاف تشدد اور مساجد جلانے کے لیے اکسانے والے ہندوستان کے دائیں بازو کے ایک سیاستدان فیس بک اور انسٹاگرام پر اب بھی سرگرم عمل ہیں حالانکہ سوشل میڈیا کمپنی کے عہدیداروں نے اس سال کے شروع میں کہا تھا کہ ہندوستانی سیاستدان نے نفرت انگیز تقریر کے قواعد کی خلاف ورزی کی تھی۔

رپورٹ کے مطابق ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن راجا سنگھ کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی بات اس وقت سامنے آئی جب بھارت میں فیس بک کی اعلیٰ عوامی پالیسی کے ایگزیکٹو انکھی داس نے راجا سنگھ اور دیگر تین ہندو قوم پرستوں پر نفرت آمیز تقریر کے قوانین لاگو کرنے کی مخالفت کی حالانکہ انہوں نے تشدد کو فروغ دیا اور اس میں حصہ لیا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق فیس بک کے جو ملازمین پلیٹ فارم کی نگرانی کے ذمے دار ہیں انہوں نے اخذ کیا کہ مارچ تک راجا سنگھ نے آن لائن اور آف لائن مسلمانوں اور روہنگیا تارکین وطن کے خلاف نہ صرف نفرت انگیز تقاریر کے اصولوں کی خلاف ورزی کی بلکہ وہ مسلمانوں کے خلاف عالمی تشدد پر اکسانے کے سلسلے میں اپنے الفاظ کے انتخاب پر خطرناک کیٹیگری میں شامل ہوئے ہیں۔

وال اسٹریٹ جنرل کی اس تحقیق کے بعد فیس بک نے سنگھ کی کچھ پوسٹس کو حذف کردیا، کمپنی نے کہا تھا کہ بی جے پی کے قانون ساز کو اب تصدیق شدہ آفیشل اکاؤنٹ رکھنے کی اجازت نہیں ہے جس کی نیلے رنگ کے نشان سے شناخت کی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: دہلی فسادات میں بھارتی پولیس نے جان بوجھ کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا، امریکی اخبار

اس رپورٹ کے مطابق نمائندے نے کہا تھا کہ فیس بک عالمی سطح پر کسی کے سیاسی مقام یا پارٹی سے وابستگی کی پروا کیے بغیر تقریر اور تشدد پر پابندی عائد کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کمپنی نے اس سال کے اوائل میں نئی دہلی میں مہلک مظاہروں کے دوران تشدد کو سراہنے والے مواد کو مسترد کردیا تھا۔

ایک سابق ملازم نے کہا کہ لیکن داس کی زیر نگرانی جو ٹیم اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ فیس بک پر کس مواد کی اجازت دی جائے، اس نے اس وقت کوئی کارروائی نہیں کی جب بی جے پی کے سیاست دانوں نے یہ الزام لگایا تھا کہ مسلمان جان بوجھ کر کورونا وائرس پھیلا رہے ہیں، قوم کے خلاف سازش کرتے ہیں اور ہندو خواتین سے شادی کی خواہش کرتے ہوئے 'لو جہاد' مہم چلا رہے ہیں۔

داس نے مبینہ طور پر بی جے پی کو انتخاب سے متعلق امور پر سازگار سلوک بھی فراہم کیا ہے اور 2017 میں مودی کی تعریف کرتے ہوئے ایک مضمون لکھا تھا۔

اپریل 2019 میں فیس بک نے اعلان کیا تھا کہ اس نے پاکستانی فوج اور ہندوستان کی کانگریس پارٹی سے منسلک غیر مہذب صفحات ہٹا دیے ہیں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس نے اس بات کا انکشاف نہیں کیا کہ اس نے داس کی مداخلت کی وجہ سے بی جے پی سے منسلک غلط خبروں والے صفحات کو بھی ہٹایا یا نہیں۔

اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ فیس بک نے بی جے پی کے ایک اور رکن اسمبلی اننت کمار ہیگڈے کی کچھ پوسٹس کو ہٹا دیا تھا جنہوں نے مسلمانوں پر 'کورونا جہاد' کے ایک حصے کے طور پر ملک میں کووڈ 19 پھیلانے کا الزام عائد کیا تھا، لیکن یہ معلومات بھی وال اسٹریٹ جنرل کے پوچھنے پر فراہم کی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: فیس بک نے کورونا وائرس سے متعلق لاکھوں جعلی پوسٹس ڈیلیٹ کردیں

اس رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ جب اخبار نے اس حوالے سے مزید اقدامات کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ بی جے پی کے سابق قانون ساز کپل مشرا کی متنازع پوسٹوں کو بھی ہٹا دیا گیا تھا۔

فروری میں کپل مشرا نے ایک تقریر میں پولیس کو متنبہ کیا تھا کہ اگر وہ ہندوستان میں متنازع شہریت کے قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والے مظاہرین کو نہیں ہٹا دیتے ہیں جس میں مسلمان تارکین وطن کو چھوڑ دیا جاتا ہے تو ان کے حامی بزور طاقت ایسا کریں گے۔

وال اسٹریٹ جنرل کی جانب سے عدالتی دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ مشرا کی جانب سے اس ویڈیو کو فیس بک پر اپ لوڈ کرنے کے کچھ ہی دیر بعد فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوگئے جس سے درجنوں افراد ہلاک ہوگئے جن میں زیادہ تر مسلمان تھے، ان میں سے کچھ ہلاکتیں فیس بک کی ملکیت واٹس ایپ کے ذریعے کی گئیں، فیس بک نے بعد میں ان ویڈیو پوسٹ کو ہٹا دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں