شہباز شریف، اہل خانہ کے خلاف منی لانڈرنگ ریفرنس سماعت کیلئے منظور

اپ ڈیٹ 21 اگست 2020
نیب کے مطابق شہباز شریف کا کنبہ اثاثوں کے حصول کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز کے ذرائع کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہا — فائل فوٹو: اے ایف پی
نیب کے مطابق شہباز شریف کا کنبہ اثاثوں کے حصول کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز کے ذرائع کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہا — فائل فوٹو: اے ایف پی

لاہور کی احتساب عدالت نے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف منی لانڈرنگ ریفرنس سماعت کے لیے منظور کرلیا۔

احتساب عدالت کے ایڈمن جج جواد الحسن ریفرنس پر ابتدائی سماعت کریں گے اور عدالت نے اسپیشل پراسیکیوٹر عاصم ممتاز کو ابتدائی سماعت کے لیے طلب کر لیا۔

مزید پڑھیں: شہباز شریف اور اہلخانہ کے خلاف منی لانڈرنگ کا ریفرنس دائر

خیال رہے کہ شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف منی لانڈرنگ سے متعلق قومی احتساب بیورو (نیب) کے ریفرنس پر اعتراض اٹھایا گیا تھا جسے بعد ازاں ختم کرکے سماعت کے لیے منظور کرلیا گیا۔

نیب کی جانب سے شہباز شریف، حمزہ شہباز سمیت 16 ملزمان کے خلاف دائر ریفرنس 55 جلدوں پر مشتمل ہے۔

اس ریفرنس میں شہباز شریف، سلمان شہباز، حمزہ شہباز، رابعہ شہباز ،نصرت شہباز ، نثار احمد ،شاہد رفیق، یاسر مشتاق، محمد مشتاق، آفتاب محمود، محمد عثمان، طاہر نقوی، قاسیم قیوم، فاضل داد عباسی اور علی احمد کو نامزد کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ شہباز شریف سمیت دیگر کے خلاف 4 ملزمان وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں، جن میں شاہد رفیق، یاسر مشتاق، محمد مشتاق اور آفتاب محمود شامل ہیں۔

یاد رہے کہ حمزہ جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں جبکہ سلیمان کو لندن سے واپسی میں ناکامی پر مفرور قرار دیا گیا ہے اور شہباز شریف نے عبوری ضمانت حاصل کررکھی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کی عبوری ضمانت میں 23 جولائی تک توسیع

واضح رہے کہ 17 اگست کو نیب نے احتساب عدالت میں شہباز شریف، ان کے دو بیٹوں اور کنبے کے دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کا 8 ارب روپے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔

ریفرنس میں بنیادی طور پر شہباز شریف پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ اپنے کنبے کے اراکین اور بے نامی دار کے نام پر رکھے ہوئے اثاثوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کے پاس اس طرح کے اثاثوں کے حصول کے لیے کوئی وسائل نہیں تھے۔

اس میں کہا گیا کہ شہباز خاندان کے کنبے کے افراد اور بے نامی داروں کو اربوں کی جعلی غیر ملکی ترسیلات ان کے ذاتی بینک کھاتوں میں ملی ہیں، ان ترسیلات زر کے علاوہ بیورو نے کہا کہ اربوں روپے غیر ملکی تنخواہ کے آرڈر کے ذریعے لوٹائے گئے جو حمزہ اور سلیمان کے ذاتی بینک کھاتوں میں جمع تھے۔

ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ شہباز شریف کا کنبہ اثاثوں کے حصول کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز کے ذرائع کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہا۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ نے نیب کو 17 جون تک شہباز شریف کو گرفتار کرنے سے روک دیا

اس میں کہا گیا ہے کہ ملزمان نے بدعنوانی اور کرپٹ سرگرمیوں کے جرائم کا ارتکاب کیا جیسا کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی دفعات اور منی لانڈرنگ کے تحت منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں درج کیا گیا تھا اور عدالت سے درخواست کی گئی کہ انہیں قانون کے تحت سزا دے۔

اس معاملے میں شہباز شریف لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے منظور کردہ ضمانت قبل از گرفتاری پر ہیں، ان کی ضمانت کی درخواست کی سماعت پیر کو ہونا تھی تاہم متعلقہ بینچ کی عدم دستیابی کی وجہ سے اس کی سماعت نہ ہو سکی۔

غیر قانونی بھرتیوں کے ریفرنس کی سماعت

بعد ازاں احتساب عدالت میں پنجاب یونیورسٹی میں غیر قانونی بھرتیوں کے ریفرنس کی سماعت ہوئی۔

احتساب عدالت نے سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران سمیت 6 ملزمان کو فرد جرم کے لیے طلب کرلیا اور 10 ستمبر کو تمام ملزمان کو پیش ہونے کا حکم دے دیا۔

اس ریفرنس کی سماعت بھی احتساب عدالت کے جج جواد الحسن کررہے تھے، اس موقع پر ڈاکٹر مجاہد کامران سمیت 6 ملزمان عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

یہ بھی یاد رہے کہ نیب کی جانب سے ملزمان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے۔

11 اکتوبر 2018 کو نیب نے پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کو غیر قانونی بھرتیوں کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

ایک روز بعد ہی لاہور کی احتساب عدالت نے غیر قانونی بھرتیوں کے الزام میں گرفتار پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران سمیت 6 ملزمان کو 10روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا تھا۔

بعد ازاں 7 نومبر 2018 کو لاہور ہائی کورٹ نے جامعہ پنجاب کے سابق وائس چانسلر مجاہد کامران اور دیگر پروفیسرز کی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: غیر قانونی بھرتیوں کا الزام: پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر گرفتار

غیر قانونی بھرتیاں کیس میں گرفتار جامعہ پنجاب کے 4 اساتذہ نے ضمانت کے حصول کے لیے ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا اور دوران سماعت عدالت کا کہنا تھا کہ نیب کی اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگانے کی جرات کیسے ہوئی۔

جس پر نیب پراسیکیوٹر یاسر صادق نے عدالت میں جواب جمع کرواتے ہوئے کہا تھا کہ اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگانے پر معذرت خواہ ہیں۔

پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ مجاہد کامران، پروفیسر ڈاکٹر لیاقت، پروفیسر امین اطہر اور پرفیسر کامران عابد کے دور میں 550 غیر قانونی بھرتیاں کی گئیں اور ملزمان نے سیکیشن بورڈ کے عمل کو بائی پاس کر کے اختیارات سے تجاوز کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں