امارات، اسرائیل امن معاہدے پر 'فلسطینیوں کے احتجاج' پر سوہا عرفات کی معذرت

23 اگست 2020
مرحوم یاسر عرفات اور ان کی اہلیہ سوہا کی یاد گار تصویر — فائل فوٹو: اے ایف پی
مرحوم یاسر عرفات اور ان کی اہلیہ سوہا کی یاد گار تصویر — فائل فوٹو: اے ایف پی

فلسطین کے معروف مرحوم رہنما یاسر عرفات کی بیوہ سوہا عرفات نے فلسطینیوں کی جانب سے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے خلاف احتجاج پر یو اسے ای سے معذرت کی ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ ہوا تھا جس کا اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا تھا، جس کے بعد مختلف ممالک کی جانب سے جہاں اس معاہدے کو سراہا گیا تھا وہیں متعدد مسلم ممالک نے اس پر تنقید کی بھی کی تھی۔

مزید پڑھیں: تاریخ متحدہ عرب امارات کے 'منافقانہ رویے' کو کبھی فراموش نہیں کرے گی، ترکی

العربیہ کی رپورٹ کے مطابق بعد ازاں مذکورہ معاہدے پر فلسطینیوں کا سخت رد عمل سامنے آیا تھا اور انہوں نے گزشتہ ہفتے امارات سے ان کے فیصلے پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق فلسطینیوں نے اس معاہدے کے خلاف مقبوضہ بیت المقدس اور دیگر فلسطینی علاقوں میں احتجاجی مظاہرے منعقد کیے تھے اور اس دوران مبینہ طور پر یو اے ای کے قومی پرچم کو بھی نذر آتش کیا گیا تھا۔

جس کے بعد مرحوم فلسطینی رہنما یاسر عرفات کی بیوہ سوہا عرفات نے سوشل میڈیا ایپ انسٹاگرام پر ایک پوسٹ شیئر کی جس میں انہوں نے فلسطینیوں کے رد عمل پر امارات سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ’ میں فلسطینی عوام کی جانب سے امارات کے عوام اور ان کی قیادت سے ان کے قومی پرچم کو نذر آتش کیے جانے پر معذرت کرتی ہوں’۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‘اختلاف رائے کو دوستی کو نقصان پہنچانے کی ہرگز اجازت نہیں دینی چاہیے’۔

سوہا عرفات نے اپنے مذکورہ پیغام کے ساتھ اپنے مرحوم شوہر اور امارات کے مرحوم حکمران شیخ زاید بن سلطان آل نہیان کے درمیان ہونے والی ملاقات کی تصاویر بھی شیئر کیں۔

یہ بھی پڑھیں: متحدہ عرب امارات کو اسرائیل سے معاہدے کے بعد امریکا سے ایف 35 طیارے ملنے کا امکان

مرحوم فلسطینی رہنما کی بیوہ کے مطابق لوگوں کو تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے اور یو اے ای کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ عرب ملک نے ماضی میں کس طرح فلسطینی عوام کی مدد کی تھی اور آج بھی اس نے ان کی اور ان کے نصب العین کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق سوہا عرفات نے مزید لکھا کہ 'اگر کسی فلسطینی کی جانب سے یو اے ای کے لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچی ہے تو اس پر میں امارات کی قیادت اور عوام سے معافی مانگتی ہوں'۔

یاد رہے کہ یاسر عرفات طویل علالت کے بعد 2004 میں فلسطین کے ایک فوجی ہسپتال میں انتقال کرگئے تھے۔

اگست 2012 میں فرانسیسی تفتیش کاروں نے یاسر عرفات کی موت کی تفتیش ان الزامات کے تحت شروع کی تھی، جن میں کہا گیا تھا کہ اُن کی موت تابکارمادہ پولونیئم زہر سے ہوئی تھی۔

امن کا نوبل حاصل کرنے والے یاسر عرفات کو زہر دے کر ہلاک کرنے کے الزامات نے اس وقت سر اٹھایا تھا جب الجزیرہ نیوز چینل نے ان کی موت کے حوالے سے ایک تفتیشی رپورٹ نشر کی تھی۔

رپورٹ میں سوئس ماہرین نے کہا تھا کہ انہیں تفتیش کے دوران مرحوم کے زیرِ استعمال اشیا سے پولونیئم ملا ہے۔

پولونیئم انتہائی تیز زہریلا عنصر ہے، جو فوجی اور سائنسی حلقوں کے علاوہ کہیں اور مشکل سے ہی ملتا ہے۔

بعد ازاں نومبر 2013 میں سوئس سائنسدانوں نے فلسطینی رہنما یاسر عرفات کی موت کے حوالے سے اہم انکشاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی موت زہر سے ہوئی تھی۔

مزید پڑھیں: اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کا متحدہ عرب امارات کا دورہ

الجزیرہ ٹی وی کی جانب سے اس حوالے سے شائع کی گئی 108 صفحات کی رپورٹ کے مطابق عرفات کی لاش کے ٹیسٹ اس بات کے حق میں جاتے ہیں کہ ان کی موت پولونیم-210 زہر دیے جانے کے باعث ہوئی۔

امارات اور اسرائیل امن معاہدہ

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان 'امن معاہدہ' ہوا تھا جس کے تحت دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات بحال ہوجائیں گے۔

معاہدے کے حوالے سے رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے کے حصوں کے یکطرفہ الحاق کے اپنے منصوے کو مؤخر کردے گا تاہم بعد ازاں اسرائیلی وزیراعظم نے ایسی رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ الحاق کا منصوبہ اب بھی زیر غور ہے۔

اس معاہدے کے بارے میں امریکی صدر نے اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی اور متحدہ عرب امارات کے وفود آئندہ ہفتوں میں سرمایہ کاری، سیاحت، براہ راست پروازوں، سلامتی اور باہمی سفارتخانوں کے قیام سے متعلق دوطرفہ معاہدوں پر دستخط کریں گے۔

امریکی صدر نے پیش گوئی کی تھی کہ خطے کے دیگر ممالک بھی یو اے ای کے نقش قدم پر چلیں گے۔

یہ بات مدِ نظر رہے کہ اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر 1967 کی 6 روزہ عرب اسرائیل جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا اور بعد میں اس کا الحاق کرلیا تھا جسے بین الاقوامی برادری نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔

اسرائیل پورے شہر کو اپنا دارالحکومت قرار دیتا ہے جبکہ فلسطینی مشرقی یروشلم کو اپنی مستقبل کی ریاست کے دارالحکومت کے طور پر دیکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امارات-اسرائیلی کمپنیز کے مابین کورونا وائرس تحقیق پر 'اسٹریٹجک تجارتی معاہدہ'

جس پر اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات 2014 میں ختم ہوگئے تھے جبکہ فلسطین نے ٹرمپ کی جانب سے امن منصوبے کو پیش کیے جانے سے قبل ہی مسترد کردیا تھا۔

فلسطین اور عالمی برادری اسرائیلی آبادیوں کو جنیوا کنونشن 1949 کے تحت غیر قانونی قرار دیتی ہے جو جنگ کے دوران قبضے میں لی گئی زمین سے متعلق ہے جبکہ اسرائیل بیت المقدس کو اپنا مرکز قرار دیتا ہے۔

واضح رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے متعدد مرتبہ اعلان کیا تھا کہ اسرائیل کے آزاد فلسطین کے علاقوں تک توسیع اور اس کے اسرائیلی ریاست میں انضمام کے منصوبے پر یکم جولائی سے کابینہ میں بحث شروع ہوگی تاہم یہ ملتوی کردی گئی تھی۔

یاد رہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس نے 23 اپریل کو کہا تھا کہ اگر مقبوضہ مغربی کنارے کا اسرائیل میں انضمام کیا گیا تو فلسطینی حکام کے اسرائیل اور امریکا سے ہوئے معاہدے کو مکمل طور پر منسوخ تصور کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے امریکا اور اسرائیلی حکومت سمیت متعلقہ بین الاقوامی فریقین کو آگاہ کردیا کہ اگر اسرائیل نے ہماری زمین کے کسی حصے کا انضمام کرنے کی کوشش کی تو ہم ہاتھ باندھے نہیں کھڑے رہیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں