لاہور: ایسے وقت میں جب وفاقی اور پنجاب کابینہ کے ارکان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو لندن سے وطن واپس لانے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں وہیں دوسری جانب قومی احتساب بیورو (نیب) بھی 'نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس' کے تنازع میں الجھا ہوا ہے۔

نواز شریف کی مبینہ 'جعلی' لیبارٹری رپورٹس کے حوالے سے نیب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد نے مطالبہ کیا تھا کہ پہلے بیورو کی تحقیقات کی جانی چاہیے۔

مزیدپڑھیں: ’پنجاب حکومت کو نواز شریف کی طبی رپورٹس سے متعلق تحقیقات کا حکم دے دیا‘

نیب نے ڈاکٹر یاسمین کے بیان پر یہ کہتے ہوئے دفاع کیا کہ اس نے ڈاکٹروں کی تعیناتی کی نا ہی کسی معالج کی خدمات حاصل کی ہیں۔

واضح رہے کہ ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر یاسمین رشید نے کہا تھا کہ نواز شریف کے خون کے نمونوں اور رپورٹس کا انتظام خود بیورو نے کیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ نیب کو اپنی پہلی رپورٹ تیار کرنے کے لیے بھی تفتیش کرنی چاہیے کہ کس لیبارٹری سے رپورٹ حاصل کی۔

اس ضمن میں ڈان سے بات کرتے ہوئے نیب کے حکام نے بتایا کہ 'بیورو ایک تحقیقاتی ادارہ ہے جس کے پاس اس کے اپنے ڈاکٹرز نہیں ہوتے'۔

انہوں نے بتایا کہ 'نیب تفتیشی افسران، پراسیکیوٹرز اور مختلف شعبوں کے کچھ ماہرین کو تعینات کرتا ہے لیکن نیب نے کبھی بھی ڈاکٹروں کی خدمات حاصل نہیں کیں'۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کو وطن واپس لانا آسان کام نہیں، شیخ رشید

نیب حکام نے حکومت سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ مشتبہ افراد کے معمول کے طبی معائنے کے لیے ڈاکٹروں کی تعیناتی کی جائے اور کسی بھی ہنگامی صورتحال میں مستقبل بنیاد پر ڈاکٹروں کی خدمات بھی حاصل کی جائیں۔

عہدیدار نے مزید بتایا کہ مشتبہ افراد کو ہسپتال منتقل کرنے کے لیے ریسکیو 1122 کی گاڑی 24 گھنٹے کھڑی رہتی ہے اور لاہور میں نیب کے دفتر میں تعینات ڈاکٹروں کا تعلق حکومت پنجاب سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف سے متعلق پہلی پیتھولوجیکل ٹیسٹ رپورٹ سروسز ہسپتال لاہور سے طلب کی گئی، جس میں نواز شریف کی پلیٹ لیٹس گنتی میں نمایاں کمی کی تصدیق ہوئی تھی اور اس کے نیب نے نواز شریف کو مزید لیبارٹری ٹیسٹ اور طبی علاج کے لیے سروسز ہسپتال پہنچایا۔

واضح رہے کہ سروسز انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر محمود ایاز کی سربراہی میں پنجاب حکومت کے زیر انتظام میڈیکل بورڈ نے نومبر 2019 میں بیماری کی پیچیدگیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نواز شریف کے بیرون ملک علاج معالجے کی سفارش کی تھی۔

مزید پڑھیں: شہباز شریف ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے نواز شریف کو واپس لائیں ، شہزاد اکبر

ڈاکٹروں کے پینل نے متفقہ فیصلہ کیا تھا کہ چونکہ پاکستان میں جینیاتی ٹیسٹ کی مکمل سہولت دستیاب نہیں ہے اس لیے 'مریض کو بیرون ملک علاج معالجہ کی ضرورت ہوتی ہے'۔

ڈاکٹر یاسمین راشد نے بتایا کہ میڈیکل بورڈ کے ڈاکٹروں نے نواز شریف کے خون کے نمونے اکٹھا کرکے ان کا ٹیسٹ کرایا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 'مجھے نہیں لگتا کہ اس سلسلے میں کوئی مشتبہ چیز ہے تاہم مجھے یقین ہے کہ نواز شریف کا علاج یہاں کیا جاسکتا تھا اور انہیں اب وطن واپس آنا چاہیے۔


یہ خبر 25 اگست 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں