بھارت نے کشمیر کو بین الاقوامی مسئلہ بناکر اپنی قبر کھودی ہے، فاروق عبداللہ

اپ ڈیٹ 27 اگست 2020
فاروق عبداللہ نے کہا کہ امریکی صدارتی امیدوار نے ہمارے حقوق کا مطالبہ کیا—فوٹو:بشکریہ کشمیرمیڈیا سروس
فاروق عبداللہ نے کہا کہ امریکی صدارتی امیدوار نے ہمارے حقوق کا مطالبہ کیا—فوٹو:بشکریہ کشمیرمیڈیا سروس

مقبوضہ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ بھارت نے 5 اگست 2019 کو خطے کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اپنی قبر خود کھودی ہے۔

کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق فاروق عبداللہ نے سری نگر میں میڈیا کو ایک انٹرویو میں کہا کہ بھارت نے گزشتہ برس 5 اگست کو کشمیر کو بین الاقومی مسئلہ بنادیا اور خود اپنے ہاتھوں سے اپنی قبر کھودی جو اس سے قبل کبھی نہیں ہوا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد ایک شان دار چیز ہوئی کہ کشمیر بین الاقوامی مسئلہ بن گیا ہے، بھارتی حکومت اس مسئلے کو ختم کرنے کے قابل نہیں ہے'۔

مزید پڑھیں:مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا ایک سال، ملک بھر میں یومِ استحصال منایا گیا

مقبوضہ خطے کے سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ 'اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس کے بعد تین مرتبہ بحث ہوئی اور یہ مذاکرہ جاری رہے گا'۔

انہوں نے امریکی صدارتی امیدوار جو بائیڈن کے اس بیان کا بھی حوالہ دیا جس میں انہوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

فاروق عبداللہ کا جو بائیڈن سے متعلق کہنا تھا کہ 'وہ امریکا کا صدر بننے کے لیے مقابلہ کر رہے ہیں اور ریکارڈ پر کہہ چکے ہیں کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کی حیثیت بحال کی جائے اور ان پر مسلط وحشیانہ حملے بند کیے جائیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ جو بائیڈن نے یہ بھی کہا کہ کشمیریوں کو دوسروں کی طرح آزادی بھی دی جائے اور اب اسی طرح کی آوازیں چین سے بھی آرہی ہیں اور انہوں نے کھلے عام کہا ہے کہ آرٹیکل 370 کو بحال کیا جائے۔

نیشنل کانفرنس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ 'یہ وہی چین ہے جس کے وزیراعظم، بھارت کے دورے پر وارے نیارے جارہے تھے لیکن اب کھلے عام ہمارے لیے بات کر رہے ہیں'۔

فاروق عبداللہ نے رواں برس مقبوضہ وادی کا دورہ کرنے والے غیر ملکی نمائندوں کو کٹھ پتلی قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی محاصرے کے 365 روز

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ لوگ کشمیری پکوان کا ذائقہ چکھتے ہیں اور دل جھیل کے گرد گھوم کر خوش ہوجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پوری وادی کے حالات اس سے مختلف نہیں ہیں'۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس 5 اگست کو مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو نہ صرف ریاست کے بجائے 2 وفاقی اکائیوں میں تقسیم کیا تھا بلکہ وادی کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لیے وہاں غیر کشمیریوں کو زمین خریدنے کی اجازت بھی دی تھی۔

بھارت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرفیو نافذ کیا تھا اور لاک ڈاؤن کے دوران موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس معطل اور پارلیمنٹ سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرکے کشمیر کو تقسیم کرنے کا فارمولا پیش کیا اور قرارداد اکثریت کی بنیاد پر منظور کرلی گئی تھی۔

بھارتی صدر نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے لیے آرڈیننس پر دستخط کیے تھے تاہم اس کا نفاذ گزشتہ سال ہی اکتوبر میں کردیا گیا تھا جس کے بعد کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: 5 اگست 2019 سے 5 فروری 2020 تک مقبوضہ کشمیر کی آپ بیتی

30 اکتوبر کی رات 12 بجے سے بھارتی حکومت کے احکامات پر عمل درآمد کا آغاز ہو گیا تھا جس کے ساتھ مقبوضہ جموں و کشمیر 2 وفاقی اکائیوں میں تبدیل ہوگیا جس میں ایک جموں و کشمیر اور دوسرا بدھ مت اکثریتی لداخ کا علاقہ شامل ہے۔

دونوں علاقوں پر حکمرانی نئی دہلی کی ہوگی اور یہاں نئے لیفٹننٹ گورنر کی تعیناتی بھی مرکزی حکومت نے کردی ہے۔

بھارتی حکومت نے ان اقدامات کے خلاف احتجاج کے پیش نظر مقبوضہ وادی میں اضافی فوجی اور پیراملٹری فورسز تعینات کردی تھی، جبکہ گزشتہ ایک برس کے دوران سیکڑوں کشمیریوں کو قتل کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں