اسلام آباد: سینیٹ میں ایف فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے متعلق دو بلوں کو مسترد ہونے کے بعد اپوزیشن نے ووٹنگ کے عمل کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا دیا اور کہا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس بل کو نہیں بھیجا جاسکتا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جب اپوزیشن نے سینیٹ کے چیئرمین کی طرف سے بلوں پر غور کرنے کی اجازت سے متعلق صوابدیدی اختیارات کی نفی کی تو چیئرمین صادق سنجرانی نے کہا کہ مذکورہ کارروائی عین قوانین کے مطابق ہے۔

مزید پڑھیں: ایف اے ٹی ایف سے متعلق دو حکومتی بل قومی اسمبلی کی کمیٹی سے منظور

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما رضا ربانی نے معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ چیئرمین سینیٹ ضابطہ اخلاق رولز 2012 کی شق 120 کے تحت صوابدید کا استعمال نہیں کرسکتے کیونکہ وہ رولز 263 کی منظوری کے بعد صوابدیدی اختیار سے دستبردار ہوگئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ ضابطہ 120 کے تحت طے شدہ دو دن کے نوٹس کی مدت ایوان نے معاف نہیں کی تھی اس لیے آرڈر نمبر 27 اور 29 نہیں اٹھائے جاسکتے تھے۔

رضا ربانی نے کہا کہ 'ایوان نے مذکورہ بلوں پر غور سے انکار کردیا لہٰذا بلوں کی دوسری مرتبہ پڑھنے اور بلوں کو منتقل کرنے کے لیے اختیار کیا گیا طریقہ سینیٹ کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔

سینیٹر رضا ربانی نے واضح کیا کہ 'بلوں کو سینیٹ نے مسترد یا منظور نہیں کیا لہٰذا انہیں واپس قومی اسمبلی یا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منتقل نہیں کیا جاسکتا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: اگر وزیراعظم ایف اے ٹی ایف کا بل پڑھ لیتے تو حمایت نہیں کرتے، رضا ربانی

انہوں نے کہا کہ بل کے ذریعے پوری قوم کو ایک دوسرے کے خلاف مخبر بنانے کی کوشش کی ہے، 'بل کے سیکشن (2) کی ذیلی دفعہ (12) میں نامزد غیر مالیاتی کاروبار اور پیشہ ور افراد کی وضاحت کی گئی ہے جس میں وکلا، نوٹریز، اکاؤنٹنٹ، ریل اسٹیٹ ایجنٹ، ریل اسٹیٹ ڈویلپرز اور پراپرٹی ڈیلر شامل ہیں اور شق 13 میں اطلاع دہندگان کو تفتیشی ایجنسیوں کی مدد کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو وہ قانونی چارہ جوئی اور سزا کے ذمہ دار ہیں'۔

سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ بل کی شق 10 میں حکومت اصل ایکٹ کی دفعہ 15 کو خارج کرنے کے لیے کہہ رہی ہے جس میں گرفتاری کے اختیارات فراہم کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اصل ایکٹ میں تفتیشی افسر کو عدالت سے گرفتاری کے وارنٹ حاصل کرنے ہوتے ہیں جبکہ یہاں گرفتاری کا اختیار بغیر وارنٹ کے دیا جارہا ہے۔

دوسری طرف سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے اس تنازع سے متعلق اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ 'اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری وقف پراپرٹیز بل 2020 اور "اینٹی منی لانڈرنگ (ترمیمی) بل 2020 24 اگست کو قومی اسمبلی سے منظور ہوئے اور 25 اگست کو ہونے والے سینیٹ کے اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیے گئے۔

مزیدپڑ ھیں: 'ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے پاکستان کامیابی کے قریب ہے'

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے صوابدیدی اختیار سے متعلق غلط فہمی پیدا ہوئی اور حکومتی بینچز اور حزب اختلاف کے درمیان ناگوار صورتحال پیدا ہوگئی۔

چیئرمین سینیٹ نے پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان کی جانب سے فاٹا کے معاملات پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے لیے دیئے گئے مشورے کا خیرمقدم کیا اور اس پر اتفاق کیا۔

ایوان میں حکومت اور اپوزیشن کے ارکان نے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی صحت سے متعلق سیاست کرنے پر ایک دوسرے پر تنقید بھی کی۔

تبصرے (0) بند ہیں